Posts

Showing posts from December, 2018

شبِ بون فائر مع شبِ ہجراں - فکاہیہ

Image
بے خطر کود پڑا آتشِ بون میں گامی  شیخ ہے محو تماشا رحیم یار خان ابھی آگ کی بہت سی اقسام ہیں جن میں سے چار اہم ہیں :- ١. پہلی قسم لغوی آگ جسے لگانے کے لیے ماچس یا لائٹر کا ہونا لازمی ہوتا ہے. ایندھن کے طور پر سوئی سے نکلی گیس، ایل - پی- جی، ایل - این - جی (اگر اس مخفف سے کسی کے ذہن میں سابق وزیراعلیٰ پنچاب کے کیسز آئیں تو ہمارا قصور نہیں. میڈیا کا ہے)، کوئلہ یا لکڑی بھی استعمال ہوتی ہے. ازمنہ وسطیٰ میں اسے چنگاری سے لگایا جاتا تھا جس پر شاعر نے کہا ہے کہ :- آنکھ میں پانی رکھ، ہونٹوں پہ چنگاری رکھ ڈاکٹر بننا ہے تو ترکیبیں بہت ساری رکھ ٢. دوسری قسم اصطلاحی آگ ہے. جو دو یا دو سے زیادہ  افراد کے گروہ کے درمیان لگائی جاتی ہے. اس میں '' چغلی اور غیبت '' سے نمایاں فوائد حاصل کیے جاتے ہیں. معاملہ اگر سنگین بنانا مقصود ہو تو'' گالم گلوچ'' کو بھی دعوت دی جاتی ہے. اس قسم کی آگ لگانے میں خاوندی ہم سے زیادہ ماہر ہے. اکثر کہتا ہے :- غیبت تھی نہ کوئی چغلی تھی ان کے پاس عجیب لوگ تھے بس اختلاف رکھتے تھے ٣.تیسری قسم جنگل ...

سکیوینجر کا شکار - فکاہیہ

Image
جھپٹنا  پلٹنا پلٹ کر جھپٹنا یہ ساری مستی شراب کی سی ہے انگریزی کی مستند لغت آکسفرڈ سے  سکیوینجر کے معنی  '' مردارخور'' کے ثابت ہیں. دوسرے معنی اس کے ایسے شخص کے ہیں جو '' مخفی چیزیں تلاش کرے'' . جب کہ لفظ شکار کا معنی اگر فیروز اللغات اردو میں دیکھا جائے تو نمبر ٤ پر '' لوٹ یا مفت کا مال '' لکھا پایا جاتا ہے. انگریزی میں شکار کو '' ہنٹ '' کہتے ہیں. اگر دونوں لفظوں کو ملایا جائے تو '' سکیوینجر ہنٹ'' کا مرکب بنتا ہے. انگریزی کا دوغلاپن دیکھیے کہ اس ملاپ سے معنی بالکل ہی بدل جاتے ہیں گویا اک نقطے نے محرم سے مجرم بنا دیا ہم پیار کرتے رہے وہ پیاز سمجھتے رہے الغرض اصطلاح میں سکیوینجر ہنٹ سے مراد ایک ایسا کھیل ہے جس میں آرگنائزرز کچھ اشیاء چھپا دیتے ہیں اور کھلاڑیوں کو انہیں ڈھونڈنا ہوتا ہے. کھلاڑی فرداً فردا ًً بھی کھیل سکتے ہیں یا ٹیم بھی بنا سکتے ہیں موخر الذکر صورتحال  بہتر ہے کیونکہ سفر تنہا نہ کاٹے تو ٹیم بنا لو  بی بی ہے جمالو، بی بی ہے جمالو خیر اشیاء تلاشنے...

سفید کوٹ تقریب مع حلف برداری - فکاہیہ

Image
خرید لایا میں نیلام سے سفید کوٹ جو پھٹ کے چل نہ سکے ،یہ نہیں ہے ایسا نوٹ جناب توجہ طلب بات ہے کہ ڈاکٹر بننے اور کہلانے کے لیے انسان کو تین چیزیں ضرور اٹھانا پڑتی ہیں. ایک اوور آل ہے جسے اصطلاح میں ''وائٹ کوٹ'' کہتے ہیں. دوسری اسٹیتھوسکوپ ہے جسے ہر وقت گلے میں ہار کی مانند لٹکائے رکھنا ہوتا ہے. تیسری چیز مادی وجود نہیں رکھتی مگر اہمیت اس کی بہت ہے ، لغت میں اسے ''بقراطی حلف'' کہتے ہیں. ابتدائی طور پر اسے دو تین صدیاں قبل مسیح، ڈاکٹر بقراط نے کٹ مارکر سے لکھوایا تھا. ڈاکٹر بقراط کو مغربی طب کا ڈیڈی مانا جاتا ہے( والدہ مگر مدر ٹریسا ہی ہونا قرار پائی ہیں.) مندرجہ بالا حلف کا مقصد جو ہمیں معلوم ہوا ہے، غالباً یہ کہ ننھے ڈاکٹر میں طبی اخلاقیات کا رجحان پیدا ہو اور وہ اپنے فرائض کو بخوبی طور پہ عملی ویسٹ کوٹ پہنائے. اس حلف کا قدیم ترین نسخہ جو موجود ہے وہ خاکی کاغذ پر یونانی زبان میں لکھا گیا ہے اور ہماری پیدائش سے تقریباً 1700 سال پرانا ہے۔  اب چونکہ بحیثیتِ مجموعی ہم انگریزوں اور یونانیوں، الغرض مغرب کے اطوار کو اپنانا جدّت خیا...