سفید کوٹ تقریب مع حلف برداری - فکاہیہ





خرید لایا میں نیلام سے سفید کوٹ
جو پھٹ کے چل نہ سکے ،یہ نہیں ہے ایسا نوٹ

جناب توجہ طلب بات ہے کہ ڈاکٹر بننے اور کہلانے کے لیے انسان کو تین چیزیں ضرور اٹھانا پڑتی ہیں. ایک اوور آل ہے جسے اصطلاح میں ''وائٹ کوٹ'' کہتے ہیں. دوسری اسٹیتھوسکوپ ہے جسے ہر وقت گلے میں ہار کی مانند لٹکائے رکھنا ہوتا ہے. تیسری چیز مادی وجود نہیں رکھتی مگر اہمیت اس کی بہت ہے ، لغت میں اسے ''بقراطی حلف'' کہتے ہیں. ابتدائی طور پر اسے دو تین صدیاں قبل مسیح، ڈاکٹر بقراط نے کٹ مارکر سے لکھوایا تھا. ڈاکٹر بقراط کو مغربی طب کا ڈیڈی مانا جاتا ہے( والدہ مگر مدر ٹریسا ہی ہونا قرار پائی ہیں.) مندرجہ بالا حلف کا مقصد جو ہمیں معلوم ہوا ہے، غالباً یہ کہ ننھے ڈاکٹر میں طبی اخلاقیات کا رجحان پیدا ہو اور وہ اپنے فرائض کو بخوبی طور پہ عملی ویسٹ کوٹ پہنائے. اس حلف کا قدیم ترین نسخہ جو موجود ہے وہ خاکی کاغذ پر یونانی زبان میں لکھا گیا ہے اور ہماری پیدائش سے تقریباً 1700 سال پرانا ہے۔ 

اب چونکہ بحیثیتِ مجموعی ہم انگریزوں اور یونانیوں، الغرض مغرب کے اطوار کو اپنانا جدّت خیال کرتے ہیں مثلاً مسلم شاور اور یونانی ادویات کو ہی لیجیے. لہٰذا ہمارے ہاں بھی اس قسم کے حلف کا اہتمام کیا جاتا ہے. اجزاء مگر اس کے حالات و واقعات کی مطابقت سے مسخ کردیے گئے ہیں. زبان اس کی انگریزی ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہماری سمجھ سے باہر ہے. اس زبان کے متعلق انور مسعود کا خیال ہے کہ انگریزی کی اہمیت اپنی جگہ مسلّم ہے کیونکہ فیل ہونے کو بھی ایک مضمون ہونا چاہیئے . خیر ہم لکھے دیتے ہیں پڑھنا ہو تو پڑھیں ورنہ آگے چلیں ہاں مگر '' پڑھنا آپ نے خود ہے، ہمارا کام صرف پیش کرنا ہے '' :-

STUDENT'S OATH

In the Name of Allah Most Gracious, Most Merciful. Praise be to Allah.... He Sustainer of His Creation.... the All-Knowing. Glory be to Him. I publicly acknowledge and accept the privileges and responsibilities .. given to me today .. as a physician in training... I will approach... all aspects of my education.. with honesty and integrity.. embracing opportunities to learn.. from patients, teachers and colleagues.. will always maintain... the highest standards of professional conduct... I will neither receive.. nor give.. unauthorized assistance .. on examinations... I will recognize my weaknesses and strengths.. and strive to develop.. those qualities that will earn the respect... of my patients... my colleagues... my family and myself. I will not forget .. that there is an art to health sciences .. And that warmth, sympathy and understanding... are integral to patient care .. I will strive to earn.. the trust of my patients place in me and the respect that society places... upon my profession .. I will recognize the privileges afforded to me ... as a physician in training.. and promise not to abuse them. O Allah .. grant me the strength, patience and dedication to adhere to this oath at all times.. Ameen. 


اس حلف نامے کو اٹھانے کے لیے جس تقریب کا اہتمام کیا جاتا ہے اسے "وائٹ کوٹ سرمنی" کہتے ہیں. اردو چونکہ ہماری قومی زبان ہے. لہذا اسے ہم "سفید کوٹ تقریب" لکھیں گے. لفظ کوٹ کا ترجمہ کرنے سے مگر ہم قاصر ہیں کیونکہ یہ تو ہمارے ہاں 'کمپنی حضور' -ایسٹ انڈیا- کی چھوڑی گئی بدعت ہے. 

خیر آمدم برسرِ مقصد ہم،گامی اور دیگر دوست اگرچہ میڈیکل کالج میں تو داخل ہوچکے تھے مگر یہ تقریب ہونا ابھی باقی تھی. چنانچہ انتظامیہ کو جونہی ہوش آیا تو فیصلہ ہوا کہ یکم دسبر کو بالآخر یہ فریضہ سر انجام دیا جائے کہ نیک کام میں دیری کیسی؟ دسمبر کو تو یوں بھی حلقہِ عشاق میں خاصی اہمیت حاصل ہے اور جونہی دسمبر آتا ہے یہ حضرات اس کے متعلق شعر کہنے لگ جاتے ہیں۔

مثلاً ملاحظہ ہو :- 

دسمبر آگیا ہے اب قسم سے یاد مت آنا 
پرانی چوٹ اکثر سردیوں میں درد دیتی ہے


اللّٰہ اللّٰہ۔
ہم نے تو فیصلہ کرلیا ہے کہ ایم بی بی ایس کے بعد گامی کو اپنا ریسرچ پارٹنر بنا کر اس بات پر تحقیق کریں گے کہ سردیوں میں چوٹوں کا درد کیوں بڑھ جاتا ہے تاکہ مندرجہ بالا شعر کی حکمت ہم پر واضح ہوسکے.. بہرحال اس دسمبر کی پہلی تاریخ کو ہم والدِ بزرگوار کو لیے کالج جا پہنچے. پارکنگ ایریا میں داخل ہوئے. 031 نمبر کی پرچی الاٹ کی گئی. ہمیں کہا گیا کہ گاڑی کو آگے بڑھائیں اور آگے بڑھاتے بڑھاتے ہمیں پارکنگ سے ہی باہر نکال دیا گیا. شکوہ یہ ہوا کہ گاڑی کی ٹرانسمیشن آٹو میٹک ہے جبکہ یہاں صرف مینؤل گاڑیاں ہی پارک کی جاسکتی ہیں. جوابِ شکوہ یہ ہوا کہ ہم تھوڑا اور آگے بڑھے اور نو پارکنگ ایریا میں اسے پارک کرکے اسمبلی ہال کی جانب روانہ ہوئے.

چلے ہیں تو کٹ ہی جائے گا سفر مگر آہستہ آہستہ
اسمبلی ہال کی جانب ہم جاتے ہیں مگر آہستہ آہستہ 

وہاں رجسٹریشن کرائی. ہال میں داخل ہوئے. والد صاحب کو ٹرئیری بینچز پر بٹھایا. ہم اپنی تشریف لیے گامی اور دیگر دوستوں کے ساتھ جابیٹھے. تقریباً 1970 سیکنڈوں کے بعد تقریب کا باقاعدہ آغاز ہوا، جب جناب عزت مآب وی سی جائے وقوعہ پر آموجود ہوئے. تلاوتِ قرآن مجید ہوئی. قومي ترانے کی دھن بجائی گئی. اس میں تو انسان ایسا ڈوب جاتا ہے کہ سوہنی دھرتی کی خاطر جان تک قربان کرنے کی ٹھان لیتا ہے بس جی! لیکن یہ اثر صرف 1 منٹ 23 سیکنڈ گویا جب تک دھن بجتی رہی قائم رہا. پھر زائل ہوگیا. اب یہ خیال غالب آیا کہ کس طرح '' ایم- بی  .بی. ایس'' . کے بعد '' یو. ایس. ایم. ای. لی '' کا امتحان پاس کرکے ریاست ہائے متحدہ امریکہ کوچ کیا جائے کیونکہ پاکستان میں تو کچھ بھی نہیں رکھا. ِان خیالات کا اظہار گامی سے کیا تو جناب نے فرمایا کہ '' شیخ! تجھے یہ خیالات اس لیے آرہے ہیں کیونکہ تیری خودی مر چکی ہے. '' ساتھ ہی یہ شعر داغ دیا :

خودی کی موت سے ہے مغرب کا اِنٹیریر بے نور
خودی کی موت سے ہے مشرق '' مبتلائے جُلاب ''

'' مبتلائے جلاب'' پر گامی نے معزرت ضرور کی لیکن ہمیں اس کی بات سے زیادہ اعتراض نہ ہوا کیونکہ ہمارا عقیدہ ہے کہ افراد کے ہاتھوں میں  اقوام کی تقدیر ہوتی ہے لہذا جلاب یعنی ڈائرہیا کے مرض کو ختم کیے جانا چاہیے تاکہ افرادی قوت سے استفادہ حاصل ہوتا رہے اور یہ نہ ہو کہ جاب پرسن باس کو فون کرے اور کہے کہ '' سر میرا پیٹ خراب ہے؛ میں نہیں آسکتا '' اب اس میں باس کچھ کہہ بھی نہیں سکتا. اس کی احتیاطی تدابیر یہ ہیں کہ گندا پانی اور اس سے تیار شدہ اشیا سے پرہیز کیا جائے. گول کپے مگر کھالینے چاہئیں کیونکہ ہمیں پسند ہیں. ہم انہیں سوچوں میں گم تھے جب خاوندی نے ہمیں یہ شعر کہہ کر دوبارہ تقریب کی طرف متوجہ کیا  

اے مرد مِجاہد جاگ ذرا 
اب وقت حلف کا ہے آیا

معلوم ہوا کہ اب اساتذہ کرام اور دیگر مستند ڈاکٹر حضرات اپنے خیالات کا اظہار فرما رہے ہیں. کچھ ہی دیر بعد وی سی صاحب سٹیج پر آئے اور ہم سے حلف اٹھوانا شروع کیا گیا. اب معاملہ یہ اتنا سنجیدہ ہے کہ اس میں مزاح کی گنجائش نہیں ہے. مگر چونکہ ہمارے سابق صدر علماء کرام سے دین میں سود کی گنجائش کا مطالبہ کرچکے ہیں تو ہمیں اس میں شرمندگی نہیں. اہم بات تو یہ کہ اس حلف کے دوران جب ہم نے اپنے ساتھ کے طلبا اور طالبات پر نظر گھمائی تو ان میں سے اکثر کو خاموش پایا - وہ شاید یقین رکھتے ہوں کہ خاموشی عین عبادت ہے اور اسکی یہ بھی مصلحت ہوسکتی ہے کہ وہ سمجھتے ہوں کہ ایسا حلف ہم نہ اٹھائیں گے. حاشا و کلا. سب سے دلچسپ صورتِ حال میں ہم نے خاوندی کو پایا. وہ ایسا شخص ہے کہ ہر دم سوشلی ایکٹو ہے اور سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر خود کو اپڈیٹ رکھنا فضیلت خیال کرتا ہے. موصوف کا حال. یہ تھا کہ دائیں ہاتھ میں حلف کا کاغذ تھامے ہوئے. بائیں میں موبائل-فون جس کا کیمرہ آن اور حضرت کہنی سے حلف اٹھا رہے ہیں. ہمیں اس کی حالت پر ترس آیا تو ہم نے فون اس سے لے کر اوور آل کی اگلی جیب میں رکھ لیا. اس میں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ جب حلف میں مریض کا ذکر ہوتا تو ہم اپنا رخ گامی کی طرف موڑ لیتے تاکہ کیمرے میں آجائے اور پکٹوریل ڈیسکرپشن ہوجائے. پھر ایک ڈرامہ پیش کیا گیا جس کا لبِ لباب یہ تھا کہ ڈاکٹر بننا نہایت خوش قسمتی کی بات ہے لیکن اس کے لیے محنت بہت درکار ہے : 

'' انجینئر'' سے بہتر ہے '' ڈاکٹر'' بننا 
لیکن اس میں پڑتی ہے محنت زیادہ 

بعد ازاں گانے گا کر سنائے گئے. دو دو ٹاپ طلبا و طالبات کو وائٹ کوٹ پہنائے گئے. باقیوں نے پہلے ہی پہنے ہوئے تھے لہذا ان پر اتنی توجہ نہ دی گئی. اس حوالے سے شعر ملاحظہ ہو :

بے کار آدمی کچھ کِیا کر
سفید کوٹ پھاڑ کر سِیا کر 

خیر دو گھنٹے اور 27 منٹ کے دورانیے کے بعد تقریب اپنے منطقی انجام کو پہنچی. منطقی انجام سے یہاں ہماری مراد '' روٹی '' ہے. اسپیکر پر اعلان کیا گیا کہ جناب روٹی کھل گئی ہے. پہلے اساتذہ، پھر والدین ' پھر لڑکیوں اور پھر لڑکوں کو بھیجا گیا. گویا یہاں بھی قدیم مغربی یورپین اصول 'َ'لیڈیز فرسٹ'َ' کو ترجیح دی گئی اور فیمینزم کے مداحوں کا دل رکھا گیا. سچ کہیں تو گامی اس اصول کے خلاف ہے. ہم مگر کسی حد تک اس کے حامی ہیں. ہمارا ماننا ہے کہ خواتین کو آگے بڑھنے کے برابر مواقع ملنا چاہیئں. اِن کو انکے عزائم اور خواب پورے کرنے دیے جانے چاہیئں . اس کے بر عکس ہمارے ہاں کچھ خواتین کو ایم بی بی ایس ہی صرف اس لیے کرایا جاتا ہے کہ'' اچھا رشتہ مل جائے گا '' اس صورتحال کے ہم خود مخالف ہیں. مختصر یہ کہ ان کے حقوق و فرائض کی برابری رکھنی چاہیئے. خیر کھانے کی طرف واپس آئیں. تو کھانا ہماری توقعات سے بھی بلند و بالا تھا. کھانے کا زکر کرتے ہوئے ہمیں بالکل بھی شرمندگی نہیں ہو رہی کیونکہ بھوک انسان کی جبلی ضرورت ہے. ہاں مگر یہ ہے کہ کھانا کھاتے ہوئے اکثر ہم شرما جاتے ہیں. ہماری کھانے کی رفتار کا یوں اندازہ لگائیں ہے کہ ہم اتنی دیر میں صرف دو روٹیاں کھا پاتے ہیں جتنی دیر میں گامی پوری کڑھائی چٹ کر لیتا ہے اور ساتھ میں ڈیڑھ لیٹر بوتل بھی پی لیتا ہے. گویا 


جس نے کی شرم
اس کے پھوٹے کرم 



یہی وجہ ہے کہ شادیوں اور اس قسم کی دعوتوں سے اکثر ہم بھوکے ہی لوٹتے ہیں. گھر آکر جب ہم روٹی کا مطالبہ کرتے ہیں تو پھر شناختی کارڈ کا مطالبہ کیا جاتا ہے. خیر کھانا کھانے کے بعد والد محترم نے ہمیں خدا حافظ کہا کیونکہ انہیں دفتر جانا تھا. فیصلہ ہوا کہ ہم گامی کے ساتھ گھر جائیں گے. فولنگ سے اس دن ہم بچ گئے کیونکہ سینئر حضرات کا موڈ بڑا بہترین تھا. ہاں ہمیں اور چند دوستوں کو جناب پروفیسر صاحب کے پاس لے جایا گیا. انہوں نے انتظامات کے حوالے سے سوال کیا.  جوابا ًً ہم نے کہا کے بہترین تھے . 

بالآخر یوں ہم سفید کوٹ پہنے کالج سے باہر نکلے. راستے میں نشتر روڈ سے برادرِبزرگوار کے لیے شولڈر ریسٹ لیا. موصوف کالج کے دنوں میں سمیش کھیلتے ہوئے اپنی بازو کا کوئی ٹنڈن اڑوا بیٹھے تھے اور اب تک مسئلہ برقرار تھا. دعا ہے کہ اس مسئلے سے موصوف کو شفا ملے. خیر اس کے بعد اسنوکر کلب گئے. اب کچھ حضرات اس پر اعتراض لگائیں گے کہ '' بھائی اسنوکر کھیلنا تو آوارہ لوگوں کا کام ہے '' جناب ! ہم یہ بات تسلیم نہ کریں گے کیونکہ قائد بھی تو یہی کھیل کھیلتے تھے. گامی تو اسنوکر کی حمایت میں یہاں تک جاتا ہے کہ اس کا ماننا ہے کہ اقبال نے یہ شعر 

نگاہ بلند جان پرسوز سخن دلنواز
یہی ہے رخت سفر میر کارواں کے لئے 

دراصل تب لکھا تھا جب قائد نے اسنوکر میں ایک سو سینتالیس سکور کیا تھا( جو کہ سنوکر کا سب سے زیادہ ممکن سکور ہے ) بہرحال اسی گامی نے ہمیں سنوکر میں ہرایا اور برے طریقے سے ہرایا. کہاں اسکے ایک سو سینتالیس اور کہاں ہمارے سینتیس. مگر واضح رہے کہ زیادہ تر پوائنٹ اس نامراد کے اس طرح ہوئے کہ ہم نے بال کو غلط خانے میں ڈالا یا سفید بال کوہی خانے میں ڈال دیا لیکن ہم نے اس شکست کو اس عزم کے ساتھ 
قبول کیا کہ

گرتے ہیں شہ سوار ہی اسنوکر کلب میں 
وہ طفل کیا گرے جو بیساکھیوں پر چلے

الغرض دن بہت بہترین گزرا. اسنوکر کے بعد ہم انڈے والے برگر کی جانب ہو لیے. اس دن تو ہماری زندگی کی سب سے بڑی خواہش پوری ہوئی جو یہ تھی کہ کسی عام ڈھابے یا دکان پر سفید کوٹ پہن کر کھایا جائے کہ لوگ 
کہیں '' وہ دیکھو ڈاکٹر بیٹھے ہیں ''

جملہ معترضہ :-( اس میں اس بات کا اضافہ کر لیجئے کہ جماعت نہم میں ایک مرتبہ ہم اپنے برادرِ عزیزم کا لیب کوٹ پہن کر اسکول گئے تھے.؛ اس پر جناب پروفیسر نصر اللہ کی جانب سے تو خوب عزت افزائی ہوئی ' ہاں مگر واپسی پر. جب ہم خاوندی کے ساتھ پٹھان سے عینک لینے رکے تو وہاں ہمیں ڈاکٹروں والی عزت ملی. تفصیلات میں اضافے کے لیے بتاتے چلیں کے ایک فریم ہمیں 
(ستر روپے نصف جن کے پینتیس روپے ہوتے ہیں کا پڑا



 ہاں مگر واپسی پر وہ دلچسپ واقعہ پیش آیا جس کے لیے ہم'' ہاتھ پہ ہاتھ دھرے منتظر فرداں تھے '' یعنی جب ہم اور گامی اوورآل پہنے' گامی کی ہونڈا پرائیڈر، ایک سو سی سی' لائٹ ایچ ڈی 'انجن میڈ ان جاپان پر بیٹھے' ہمارے گھر کی جانب رواں دواں تھے تو اسی دوران ایک چھوٹے بچے نے ازراہ تفنن آواز کسی '' ڈاکٹر صاحب'' گامی تو یہ سن کر پھولے نہ سما رہا تھا. ہم نے سوچا کہ کہیں اسے ہسٹامین کی ضرورت نہ پڑ جائے. خیر اس بات پر ہم نے اس خوبصورت بچے کے ساتھ ایک عدد سیلفی بنوائی اور پھر اسے جانے دیا. ایک یادگار دن کے اختتام پر ہم چہرے پر مسکان لیے گھر میں داخل ہوئے :اور با آواز بلند فرمایا 

.. '' ماں ' میں ڈاکٹر بن گیا ماں '. 

.... والسلام

Comments

Post a Comment

Popular posts from this blog

لُڈو اِسٹار اور گامی - فکاہیہ

قصہ ہمارے نکاح کا

وہ ساتھ بیٹھ جائے تو رکشہ بھی مرسڈیز