لُڈو اِسٹار اور گامی - فکاہیہ
جھپٹنا پلٹنا پلٹ کر جھپٹنا
لہو گرم رکھنے کا ہے اک بہانہ
عرض ہے کہ اگر مندرجہ بالا شعر کو سلیس اردو میں لکھ کر مفہوم اخذ کریں تو '' کھیلنے اور کودنے '' کا پیغام ملتا ہے. یوں بھی ماہرینِ طب کے مطابق صحت مند زندگی کے لیے یہ دونوں افعال لازم و ملزوم ہیں. ہمارا مگر کودنے سے پرہیز ہے. وجہ اس کی یہ ہے کہ ہم فطری طور پر کمزور و ناتواں ہونا قرار پائے ہیں. مثال اس کی یوں لیجئے کے نشتر میں داخلے سے قبل جب ہم فوج میں، بطور میڈیکل کیڈٹ، داخلے کے امیدوار تھے، تو ہمیں فزیکل امتحان میں یہ کہہ کر نکالا گیا ہے کہ '' میاں! جاؤ تم سے نہ ہو پائے گا !! '' ہم بھی حضرت محسن نقوی کے اصول پر وہاں سے نکل آئے کہ
خود بخود چھوڑ گئے ہیں تو چلو ٹھیک ہوا
اتنے احباب کہاں ہم سے سنبھالے جاتے
خیر آمدم برسر مقصد؛ کھیلنے سے ہم مگر پرہیز نہیں کرتے. سوائے اس کے کہ کھیل ایسا ہو جس میں مشقتِ جسمانی شامل ہو . مثلاً ہاکی، فٹبال اور کرکٹ سے ہماری جان جاتی ہے. کرکٹ تو یوں بھی فضول کھیل ہے کہ اس میں دو افراد تو کھیلتے ہیں اور بقایا
بنا کر کرکٹروں کا سا بھیس غالب
تماشاۓ اہل کرم دیکھتے ہیں
برعکس اسکے ہمیں وہ کھیل بھاتے ہیں جو بیٹھے بیٹھے انجام پائیں. مثال کے طور پر لڈو، تاش یا شطرنج. ان کے متعلق ہمارا دعویٰ ہے کہ ہمیں ان میں ید طولیٰ ہے. گامی مگر ہمارے اس دعوے کا منکر ہے اور ہمیں کہتا ہے کہ :-
جسم پر ماس نہیں رہنے دیا کرتی یہ آگ
اس تن و توش پہ دعویٰ ہے کہ تم عاشق ہو
بات چلی ہے تو بتاتے چلیں کہ گامی بھی اپنی طرز کا انسان ہے. خامی مگر اس میں یہ ہے کہ اکثر اوقات سے باہر ہو جاتا ہے. مثلا تاش کو '' کارڈز '' کہنے لگتا ہے. یہاں تک تو بات پھر بھی قابل برداشت ہے. ہاتھ سے مگر یہ تب نکلتی ہے جب حضرت اینٹ والے پتے کو ڈائمنڈ اور چڑیا والے کو سپیرو کہنے لگتے ہیں. مزید یہ کہ'' یکے کو ایسس'' پکارنے لگتے ہیں. ہم نے اک بار سمجھانا چاہا کہ
'' گامی تم تو اقبال کے مداح ہو اور ان کا بیان ہے کہ مغرب کی طرف جاؤ گے تو ڈوب جاؤ گے ٠ پھر یہ انگریز پنا کیسا؟ '' حضرت نے گرگٹ کی طرح رنگ بدلا اور فوری طور پر گیلیلیو کے مداح بن گئے. کہنے لگے :-
'' یا شیخ! سائنس کا دور ہے. تمہیں نہیں معلوم کہ سورج نہیں ڈوبتا. سورج تو وہیں موجود رہتا ہے ہاں مگر. دنیا اس کے گرد گھومتی ہے ''
اس واقع نے ہمیں گھما کر رکھ دیا کہ اس قدر ادب شناس انسان کی زبان سے یہ بات سننا. لہذا ہم نے فیصلہ کیا کہ بدلہ لینا ہوگا. برائے ریکارڈ گامی کو لڈو کچھ پسند نہیں. سبب اس کا یہ بیان ہوا ہے کہ بچپن میں جب یہ اپنی خالہ زاد کے ساتھ لڈو کھیل رہا تھا تو اس دوران ایسا موقع آیا کہ خالہ زاد نے بے ایمانی کی اور ہار کے خوف سے لڈو اڑا پھینکی. گتے کی نکڑ مگر گامی کی آنکھ میں جا لگی اور کافی عرصہ بیچارا کانا رہا.لہذا اب اس کو لڈو '' ایک کانی آنکھ '' نہیں بھاتی. برائے انتقام اس کی عدم دلچسپی کے باوجود ، کالج میں منعقدہ لڈو ٹورنامنٹ میں اس کا نام بطور اپنے رفیق کے لکھوا دیا. (واضح رہے کہ یہ ٹورنامنٹ '' نشتر گیم فیسٹ دو اشاریہ صفر '' کے تحت ہونا قرار پایا تھا جسے فائل ائیر کے سینئرز نے منعقد کروایا تھا جس پر ہم ان کے تہہ دل سے مشکور ہیں)
نام لکھوانے کے بعد جلتی پر پٹرول چھڑکنے کے لیے ہم نے یہ خبر بطور ایس ایم ایس ارسال کی اور ساتھ ہی یہ شعر لکھ ڈالا :-
شیخ جب بھی لوٹ کر آتا ہے
یا تو وائیوا لیتا ہے یا انتقام
توقع کے عین مطابق حضرت ناراض ہوگئے. اب وقت منانے کا آگیا. ہم نے سوچا کہ ایسے انسان پر بیلنس ضائع نہیں کرنا چاہئے لہذا میسنجر کے ذریعے مفت کال ملائی. حضرت کے ایسے ایسے فضائل کی تعریفوں کے فلائی اوور کھڑے کیے جو ان میں ندارد ہیں. پھر باوجود جاننے کے استفسار کیا کہ :-
'' میاں! لڈو کھیلنے میں آخر تمہیں اعتراض کیا ہے؟ ''
کہنے لگے : '' ہمیں ان فضولیات کا شوق ہرگز نہیں ''
ہم نے اب دوسرا حربہ آزمایا.
کہا : '' میاں اس سے تم اسٹار بن سکتے ہو! ''
'' اسٹار؟ اسٹار کیسے؟ '' پرجوش آواز میں جواب آیا کیونکہ حضرت کو بچپن ہی سے اسٹار بننے کا شوق تھا.
ہم نے زور دیا :'' بیوقوف ! تم اس سے لڈوکے اسٹار بن سکتے ہو. تم لڈو کا. میچ جیتو گے اور تم لُڈو اسٹار بن جاؤ گے. اس میں کون سی پریشانی ہے؟ '' اور گامی مان گیا.
بالآخر وہ دن آگیا جب یہ میچ ہونا قرار پائے. ہم پرجوش تھے. ہمیں پہلے سے ہی مخالفین کا بتا دیا گیا تھا کہ جن سے ہمارا مقابلہ ہوگا. لہذا پہلے تو گامی نے اُنکے حوصلے پست کرنے کی کوشش کی اور پھر لیکچرز کے بعد ان کے ساتھ ہم جائے وقوعہ یعنی نشتر ہٹ پر پہنچے ابھی کھیل کے آغاز کے حالات بن رہے تھے. کرسیوں کا بندوبست ہوا. مہمان خصوصی کی آمد ہوئی. ہمیں لڈو اور گوٹیاں فراہم کی گئیں. اپنی نوعیت کے تازہ ساخت کے اصول بیان کئے گئے جو بلاشبہ طب کی کتابوں کی مانند تھے یعنی ایڑی چوٹی کا زور لگانے کے باوجود سمجھ میں نہ آنے والے. بقول عثمانی :
طب نے غالب نکما کر دیا
ورنہ ہم بھی آدمی تھے کام کے
کھیل کا باقاعدہ آغاز ہوا. ہمارے حوصلے بلند تھے. مگر حالات کشیدہ سے کشیدہ تر ہوتے چلے گئے. ابتدائی دور میں مخالفین برتری حاصل کیے ہوئے تھے. اس پر طُرفہ یہ کہ بوندا باندی کا سماں تھا. ہم چونکہ شیڈ کی نُکڑ پر بیٹھے تھے اس لیے ہم پر '' ٹپ ٹپ برسا پانی'' تھا. جاڑے کا موسم تھا لہذا ہم وائبریشن موڈ میں چلے گئے تھے. بہت زور سے کانپنے لگے تھے. اس میں ہمارا قصور نہیں ہے. کہا جاتا ہے کہ سردی اور بے عزتی محسوس کرنے سے لگتی ہیں. اول الذکر کو ہم زیادہ ہی محسوس کرتے ہیں اور موخر الذکر سے بے نیاز ہیں. یہی وجہ ہے کہ ہم کئی سویٹر اور جیکٹ بیک وقت پہنے ہوئے ہوتے ہیں. ہمیں دیکھ کر لوگ سراپا سوال ہوجاتے ہیں کہ:
'' اے ابلیس صفت انسان! تو بندہ ہے کہ پیاز؟ جو اتنی تہوں میں لپٹا پھر رہا ہے ''
بہر حال، حالات ہمارے حق میں نہ تھے. ملاحظہ ہو کہ ایک طرف مخالفین کے چھ پر چھ آ رہے ہیں اور یہ ہم چھوٹے چھوٹے ہندسوں میں بیٹھے ہیں. اُن کی اکثر گوٹیاں سرخرو ہوچکی ہیں جبکہ ہماری دربدر ٹھوکریں کھا رہی ہیں؛ گویا غریب عوام ہوں اور حکومتِ وقت سے ریلیف مانگ رہے ہوں. ایک وقت تو ایسا آیا کہ ہم بالکل ناامید ہوگئے. گامی سے کہا کہ :
'' جانی! چلو گھروں کو چلتے ہیں. ہار مان لیتے ہیں ''
مگر اس نے فرمایا :
شیخ ناامید نہ ہو اپنی لڈؤِ ویراں سے
اور پھر اس نے آیت الکرسی کا ورد شروع کردیا. خدا کی مہربانی ہوئی. کھیل کا پانسا یک دم پلٹا. مخالف جو وکٹری ویڈیو بنانے کا خیال رکھتے تھے سر پکڑ کر بیٹھ گئے اور کھیل کا اختتام یوں ہوا کہ مخالفین کی گوٹیوں کو صرف یکہ درکار تھا لیکن ہم نے پہلے ہی گوٹیاں سرخرو کرا لیں خوشی کا عجب عالم تھا دل گوگی گوگی ہوگیا تھا. گامی نے ایسا محسوس کیا کہ اس نے زندگی کا مقصد ہی حاصل کر لیا ہو. کہنے لگا کہ :
ہے زندگی کا مقصد لڈو کے میچ جیتنا.
وہ تو چھٹی صدی عیسوی میں بنے اس کھیل کا دیوانہ ہو گیا ہم نے اس کی دیوانگی کم کرنے کے لیے ایک کپ چائے اور ایک عدد رول اسے عنایت فرمایا جسے دیکھ کر وہ یقین نہ کر پایا کہ شیخ صاحب نے خرچہ کیا ہے ٠ ہاں مگر قبول اس نے فوراً کر لیا کہ مفت ہاتھ آئے تو برا کیا ہے؟
ابھی ہم اس مسرتوں کے کھیل میں تھے جب ہمیں بتایا گیا کہ :
ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں
ابھی لڈو کے امتحاں اور بھی ہیں
دوسرا مقابلہ ہمارا اصولی طور پر خاوندی اور عثمانی کے خلاف ہونا قرار تھا مگر چونکہ وہ پہلے ہی دوسری ٹیم کے ساتھ کھیلنے لگ گئے تو مجبوراً ہمارا میچ '' ٹیم لڈو ٹائٹنز '' سے ہوا. گامی نے کہا کہ کیوں نہ ان پر ریورس سائیکلوجی کا استعمال کیا جائے لہذا ان سے کہنے لگا کہ
'' ہمیں تو کھیلنا ہی نہیں آتا. اگر ہم پہلی گیم جیتے ہیں تو یہ تو محض ہماری قسمت اچھی تھی. یقین مانو تم. لوگ ہی جیتو گے. ہم تو ناکام و نامراد لوٹنے والوں میں سے ہیں ''
گامی کا خیال تھا کہ اس سے وہ اوور کانفڈینس کا شکار ہوجائیں گے اور باآسانی ہار جائیں گے. ایسا مگر نہ ہوا. ہماری قسمت ایسی بری رہی کہ چھے کا ہندسہ ہم سے روٹھ گیا. یہاں تک کہ جب مخالفین اپنی تمام گوٹیاں ما سوائے ایک کے پکی کرا چکے تھے اور گامی بھی تین گوٹیاں پُگوا چکا تھا؛ اس وقت ہماری تمام گوٹیاں گھر کے اندر تھیں. ہاں آخر آخر میں چھے ایک دو بار آیا مگر اس پر ہمیں مومن خان مومن کا شعر یاد آگیا کہ :
وہ آئے ہیں پشیماں لاش پر اب
تجھے اے زندگی لاؤں کہاں سے
آخر کار ٹیم ٹائٹن کی آخری گوٹی پگ گئی اور ہمیں عبرت ناک شکست کا سامنا ہوا. ہمارا غرور مٹی میں مل گیا. ہم ہکے بکے رہ گئے. ہمارے ہوش و ہواس جاتے رہے. اب'' ٹیم ٹائٹنز '' کا میچ عثمانی اور خاوندی( جو دوسرا میچ جیتے تھے) سے ہونا قرار پایا. ہم نے '' خاوندی اینڈ کو '' کو خوب دعائیں دیں جو مگر قبول نہ ہوئی اور وہ بھی ہار گئے.لہذا '' ٹیم ٹائٹنز '' فرسٹ ایئر کی فاتح قرار پائی.
اس تمام صورتحال کا نتیجہ یہ ہوا کہ گامی ہم سے خوب نالاں ہوا. کہنے لگا
'' میاں تم نے تو اسٹار بنانا تھا. پر یہاں تو تم نے میری عزت کو ملیامیٹ کردیا. ''
ہم نے سمجھایا کہ :
'' میاں تم نے تو اسٹار بنانا تھا. پر یہاں تو تم نے میری عزت کو ملیامیٹ کردیا. ''
ہم نے سمجھایا کہ :
لڈو پر زور نہیں، ہے یہ وہ آتش غالب
جو لگائے نہ لگے اور بجھائے نہ بنے
وہ مگر نہ سمجھا.
کہنے لگا:'' نامراد ! مجھے اب گھر چھوڑ کر آ. تیری وجہ سے میں نے اپنی سب اسٹیج داؤ پر لگائی اور تو یہاں غلب کے شعروں کا بیڑا غرق کر رہا ہے ''
ہم سمجھ گئے کہ معاملہ اب پہنچ سے باہر جا رہا ہے. لہذا فوری طور پر اُسے لیے اپنی'' یاماہا جنون ایک سو سی سی چیسس نمبر 223190 میڈ ان چاپان'' تک پہنچے جو بارش کے باعث شبنم کے قطروں میں ڈوبے گلاب کے پھول کا منظر پیش کر رہی تھی. ہم نے اپنے بستوں کی پشت سے گدی کو صاف کیا اور گھر کا. راستہ ناپا. دورانِ سفر گامی بالکل خاموش رہا اور جب اس کے دولت کدے پر اسے اتارنے کے لیے پہنچے تو جناب نے ان الفاظ میں ہماری سواری کی تعریف ہیان کی:
ان بارشوں سے دوستی اچھی نہیں ہے شیخ
کھٹارہ تری '' یاماہا'' ہے کچھ تو خیال کر
جاتے جاتے اس نے براہِ تکلف اندر آنے کا کہا جس پر ہم نے رضامندی نہ دکھائی کہ محض سطحی دعوت تھی. ہم نے کک ماری اور اپنے غریب خانے کو ہولیے. گھر پہنچ کر دن کا قصہ بیان کیا تو سوال ہوا کہ :
'' پتر! تُسی نشتر ڈاکٹر بنن جاندے او کہ لڈو اسٹار؟
(بیٹا! آپ. نشتر ڈاکٹر بننے جاتے ہو یا لڈو اسٹار؟) ''
رہے نام اللہ کا -
والسلام...
Comments
Post a Comment