قصہ ہمارے نکاح کا
شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان اور نہایت رحم کرنے والا ہے ۔
اے لوگو ہمارا نکاح نہیں ہوا ۔
خدا کی قسم ! ہمارا نکاح نہیں ہوا ۔
نکاح تو دور کی بات ، اللہ جانتا ہے منگنی بھی نہیں ہوئی اور نہ ہی کسی گھرانے میں ہمارے رشتے کی بات چلائی گئی ہے ۔ لہذا ہمیں اس قسم کے میسج کر کے شرمندہ نہ کیجئے کہ "عبداللہ ! کیا تمہارا نکاح ہوگیا ہے؟ " " میاں صاحب کیا منگنی طے پا گئی ہے ؟ " کیونکہ یہ نہ صرف ہمارے لیے شرمندگی کا باعث بن رہا ہے بلکہ ان سوالات سے ہمیں مایوسی اور یہاں تک کہ ڈپریشن ہو رہا ہے کہ اس عمر میں جہاں ہمارے ہم جماعتوں کے بال بچے ہو چکے ہیں
( مثال کے طور پر محمد امین کو ہی لیجیے جس نے فرسٹ ایئر ایم بی بی ایس میں ایڈمیشن کے ساتھ ہی شادی کر لی اور پہلے پراف کی پریپس کے دوران اس کے ہاں اللہ کی رحمت آن موجود ہوئی ) اس کے برعکس ہم ابھی تک یہاں کنوارے پھر رہے ہیں اور آئندہ بہت سالوں تک خود کو اسی حالت میں پا رہے ہیں ۔ ایسے حالات میں پھر ڈپریشن نہ ہو تو اور کیا ہو ؟
اس ساری صورتِ حال کے ذمہ دار بہرحال ہم خود ہیں ۔ ہوا کچھ اس طرح کہ ذیل میں دی گئی تصویر ہم نے ایک شب فیس بک پر چڑھا دی اور ساتھ یہ لکھا :
"الحمدللہ ۔
سادگی کے ساتھ معاملات طے پائے ۔
آخر کار ۔ "
ساتھ ہی اس بات کو مزید قابل اعتماد بنانے کے لئے
ہم نے ڈاکٹر ساقی حسن کا جو اس تصویر میں ہمارے ساتھ موجود تھے تقریب میں آمد کا شکریہ ادا کر دیا ۔ واضح رہے کہ ہماری طرف سے ایک مذاق تھا لیکن گویا یہ "شیر آیا ، شیر آیا" والا معاملہ بن گیا کیونکہ کسی کو شبہ تک نہ ہوا کہ یہ ایک مذاق ہے ۔ نہ صرف اس پوسٹ پر مبارک باد کے کمنٹس آنے لگے بلکہ ہمارا انباکس اس قسم کے سوالات سے بھر گیا کہ
" میاں کس کے ساتھ نکاح کیا ہے ؟ "
ہم بھی پھر نہایت معصومانہ اور گمراہ کن جواب دیتے رہے
" کہ جناب سادگی کے ساتھ "
خیر آمدم بر سرِ مقصد
ہم نے سوچا کہ محض شغل ہی تو ہے اور یہ کہ ایک دو دن بعد ہم اس پر ایک وضاحتی پوسٹ کر دیں گے کہ ایک مذاق تھا ہمارا کوئی نکاح وکاح نہیں ہوا ۔
لیکن ہم اس وقت سوچنے پر مجبور ہوگئے جب ہمیں گامی کا میسج آیا کہ
"میاں شام کو تو آپ ہمارے ساتھ گوگی میں "قیدی قیدی" کھیل رہے تھے اور وہاں سے فارغ ہوکر راتوں رات نکاح رچا لیا " ساتھ ہی گلہ کیا کہ " ہمیں ساتھ لے کر جانا تو درکنار ، تم نے تو ہمیں بتانا تک مناسب نہیں سمجھا، دھوکے باز ، مکار ، ایک نمبر کے جھوٹے ، کمینے اور پاجی انسان ! "
اس کا میسج دیکھ کر تو ہمارے اوسان خطا ہو گئے ہمیں گامی جیسے بندے سے تو امید نہ تھی کہ ہمارے اس مذاق کو حقیقت سمجھ لے گا ۔ اسے تو میرا کچا چٹھا پتا ہے ۔اسے یہ بھی معلوم ہے کہ جو ہماری حالت ہے اس کے پیشِ نظر کوئی معقول باپ ہمیں اپنی بیٹی نہ دے گا ۔ لہذا ہمیں دھچکا لگا۔
ہم نے سوچا کہ گامی جیسا قریبی ترین دوست بھی اس بات پر یقین کر سکتا ہے تو ہمارے پاس تو کم و بیش تئیس سو لوگ فیس بک پر ایڈ ہیں ۔ اس میں اساتذہ ، دوست ، احباب ، دور و نزدیک کے رشتے دار ، آنٹیاں ، چند بین الاقوامی دوست (جن سے ہماری آئی۔ بی ۔او ۔ دورہ ایران کے دوران سلام دعا بنی تھی) ، سیلاب زدگان ، زلزلہ متاثرین اور دیگر شامل ہیں ۔ اس میں خاص طور پر رشتہ داروں میں ایک کوٹہ آنٹیوں کا ہے۔ ہم نے سوچا کہ اگر کسی آنٹی نے ہماری پوسٹ دیکھ لی۔ تو یہ ہوگا کہ سیدھا ہماری والدہ محترمہ کو فون آئے گا کہ
"اللہ رکھی! بیٹے کا نکاح بغیر بتائے کردیا ۔چپ چپیتے۔ اللہ اللہ۔ ذرا شرم نہ آئی؟ کچھ خاندان والوں سے مشورہ تو کیا ہوتا ۔ تم تو کچھ سمجھتی ہی نہیں ہو ہمیں ۔ (جیسے بچپن سے لے کر اب تک کہ ہمارے تمام مالی اور دیگر اخراجات انہوں نے اٹھائے اور اور اب ہمیں یہاں چھوڑ گئے ہوں ) "
ایسے میں والدہ محترمہ بھی ہکا بکا رہ جائیں گی ۔ اب اگر یہ پوچھیں گی کہ "کونسا نکاح ؟ مجھے تو کچھ نہیں معلوم " تو سمجھا جائے گا کہ لڑکے نے بھاگ کر نکاح کر لیا کہ ماں تک کو نہیں معلوم ۔ لیکن جہاں تک بھاگنے کا تعلق ہے تو اس سے ویسے ہمیں موت پڑتی ہے۔ ہمارا مسلسل باہر کو آتا پیٹ (گویا دیکھنے میں ایسے لگے کہ ہم پیٹ سے ہیں ) اور وزن میں یک دم اضافہ دیکھ کر آپ کو ورزش سے ہماری نفرت کا یقین ہوجائے گا ۔ لہذا والدہ محترمہ کو اس حوالے سے پریشان نہیں ہونا چاہیے لیکن نہ چاہتے ہوئے بھی ہمارے والدین کسی نہ کسی حد تک لوگوں کی باتوں میں آجایا کرتے ہیں ۔ لاکھ سمجھاؤ کہ
" اماں جان !
کچھ تو لوگ کہیں گے، لوگوں کا کام ہے کہنا
چھوڑو بیکار کی باتیں، کہیں بیت نہ جائے رینا "
پھر بھی وہ آخر میں اسی فکر میں ہوں گی کہ بیٹے کی شادی ہے تو اس پر کتنے تولہ سونا ڈالنا ہے کہ کوئی کمی نہ رہ جائے اگر کوئی پوچھے اور ولیمہ تو انتہائی پروقار ہونا چاہیے ۔ وہ الگ بات ہے کہ بعد میں آنٹی فرخندہ نے یہ کہنا ہے کہ
"ایک ہی وقت میں میرے پاس آئسکریم اور گجریلا دونوں آگئے تھے ۔ میں سمجھ نہ پائی کیا کھاؤں لہٰذا انتظام ٹھیک نہیں تھا "
اللہ معاف کرے۔ بات کہاں سے کہاں نکل گئی۔ تو بات اس فوٹو کی ہو رہی تھی جو ہم نے رات کی تاریکی میں لگائی لیکن جب ہمیں اندازہ ہوا کہ خبر جنگل میں آگ کی طرح پھیل رہی ہے اور قریب کوئی فائر بریگیڈ اسٹیشن بھی نہیں ہے تو ہم نے نہایت عقلمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے صبح کی چند کرنیں پھوٹنے کے ساتھ ہی اس پوسٹ کو اڑا دیا۔
ہمارا ماننا ہے کہ جو انسان دیکھ لیتا ہے وہی مان لیتا ہے ۔ آج تک ہمارے ساتھ من حیث القوم یہی ہوتا آیا ہے کہ ہمیں مسلسل اور کافی دیر تک حقیقت سے برعکس دکھایا جاتا ہے اور پھر جب ہمیں کوئی سچ بتاتا ہے تو ہم اسے تسلیم نہیں کر پاتے ۔ معاشرتی علوم اور مطالعہ پاکستان کی کتابیں پینتالیس برس سے یہی تو کر رہی ہیں ۔جی ہاں۔ آپ حیران ہوں گے نہ تو پاکستان 14 اگست کو بنا(درست تاریخ 15 اگست ) اور نہ ہی قراردادِ لاہور 23 مارچ کو منظور ہوئی ( درست تاریخ 24 مارچ)۔ نہ صرف یہ بلکہ 1857 کی جنگ کوئی جنگِ آزادی نہ تھی بلکہ بغاوت تھی ۔آپ کو میری باتیں غلط لگ رہی ہوں گی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ چودہ سال ایک ہی جھوٹ پڑھایا گیا ہے اور نہایت غیر انسانی طریقے سے پڑھایا گیا ہے۔ ذرا سوچئے کہ ایک کچی کلاس کے بچے کو صرف اتنا بتایا جاتا ہے کہ
"پاکستان کس نے بنایا ؟ قائد اعظم نے ۔ "
وہ تو یہی سمجھے گا کہ پاکستان کوئی عمارت تھی جس کو بنانے کا ٹھیکہ قائداظم کو ملا ۔ بہتر طریقہ یہ ہے یوں لکھا جائے کہ
" ہم سب پاکستان میں رہتے ہیں جو ایک اسلامی ملک ہے جس کے حصول میں قائد اعظم نے سب سے بڑھ کر کردار ادا کیا اس لیے انہیں بانیِ پاکستان کہا جاتا ہے ۔ اس حوالے سے اگر آپ مزید پڑھنا چاہتے ہیں تو "کے۔کے۔عزیز" کی کتاب "دی مرڈر آف ہسٹری " کا مطالعہ کریں (پی۔ ڈی۔ایف فائل کے حصول کے لیے راقم سے رابطہ کریں) ۔ آپ کی آنکھیں اور دماغ دونوں کھلے کے کھلے رہ جائیں گے جب آپ کو اندازہ ہوگا کہ قائد ملت کوئی قومی ہیرو نہ تھے بلکہ بانئ پاکستان کے شدید مخالف تھے ۔ یہاں تک کہ ان کی موت میں بھی ان کا ہاتھ تھا ۔ یہ باتیں عام طور پر لکھی نہیں جاتیں ۔ وجہ یہ ہے کہ پڑھنے والے سچ پڑھنے کے عادی نہیں ہوتے۔ میں مگر پرواہ نہیں کرتا ۔ مجھے حق بات لکھنا اچھا لگتا ہے
خیر کہاں کی بات کہاں چلی گئی ہے ۔ قصہ اس فوٹو پر ختم کرتے ہیں جو بظاہر ہمارے نکاح کی تقریب کی نشاندہی کرتی ہے ۔
ہوا کچھ یوں کہ ہم اپنے استاد جناب ساقی حسن ؒ کے ساتھ اُچ شریف گئے ۔عام طور پر قبلہ دعوتوں اور سیر سپاٹے پر نہیں جاتے لیکن چونکہ یہ جگہ ان کے مزاج کے مطابق تھی ۔ سبب یہ کہ وہاں تاریخی فنِ تعمیر اور آرٹ کے شاہکار موجود ہیں لہذا انہوں نے حامی بھر لی ۔
بھلا ہو ہمارے جونیر احمد ملک کا جس کے ماموں جان وہاں کے خلیفہ ہیں۔ انہوں نے وہاں ہمارا خوب خیال رکھا اور ہمیں بہترین رہنمائی فراہم کی ۔خیر جب ہم وہاں گلیوں میں پھر رہے تھے تو خاوندی اور عثمانی کو کسی کام کے لیے کار تک واپس جانا پڑا ۔ کار دور پارکنگ میں کھڑی تھی۔
اس دوران وہاں میں ، جناب استاد محترم اور صدیقی بچ گئے۔ ابھی ہم اس گلی میں کھڑے بات چیت کر رہے تھے کہ ایک بڑھیا ہاتھوں میں پھولوں کے ہار لئے نمودار ہوئی۔ واضح رہے کہ اس سے پہلے پیلا دوپٹہ نما پٹکہ ہم سب کے گلے میں دربار کے ولی عہد نے نذرانے کے حصول کے لیے ڈال دیا تھا ۔
اب جو یہ بڑھیا تھی اس کا طریقہ بظاہر یہ تھا کہ پہلے تو گلے میں ہار پہناتی، پھر دعا دیتی اور پھر کچھ نذرانے کا مطالبہ کرتی ۔ جناب ساقی صاحب اس روز ذرا شوخیِ مزاج کا مظاہرہ کر رہے تھے ۔ فوراً بڑھیا سے کہا :
" اماں ! اِناں ڈواں نو ہار پہنا تے دعا دے چا ( ان دونوں کو ہار پہناؤ اور دعا دو) " ساتھ ہی پچاس کا نوٹ تھما دیا اور وہ ہار پہنا کر چلتی بنی ۔
ابھی ہم محو انتظار ہی تھے ، خاوندی اور عثمانی ابھی تک لوٹے نہ تھے ۔لیکن گلی میں یوں کھڑا ہونا مناسب نہیں لگ رہا تھا ۔ دربار کے خلیفہ صاحب ( احمد ملک کے ماموں جو ہمہ وقت ہمارے ساتھ رہے ) کہنے لگے کہ اس ڈھابے نما ہوٹل پر کچھ دیر بیٹھ جاتے ہیں جب تک کہ وہ لوگ نہیں آتے ۔ ہم لوگ وہاں بیٹھ گئے ۔ استاد محترم پیلا دوپٹہ نما پٹکہ پہلے اتار چکے تھے ۔ ہم مگر ہار کے ساتھ اسے پہنے ہوئے تھے۔ (جیسا کہ تصویر میں واضح ہے) یوں ہی بیٹھے گفتگو چل رہی تھی کہ بھلا ہو صدیقی کا کہ اس نے ذیل میں دی گئی فوٹو کھینچ لی اور ہمیں خبر بھی نہ ہونے دی۔ ایسے اچھے دوست کم ملتے ہیں ۔ ان کی قدر کیجئے۔ کیوں کہ آخر میں یہی لوگ آپ کے ساتھ رہ جاتے ہیں ۔ نہیں بلکہ ہم غلط لکھ گئے ۔ آخر میں کوئی ساتھ نہیں ہوتا ۔ قبر میں اکیلے اترنا ہے ۔ حساب بھی تنہا ہی دینا ہے ۔
لہذا آج سے عہد کریں کہ صرف اللہ کے حضور جواب دہ ہونے کی فکر کریں گے اور یہ پروا نہ کریں گے کہ لوگ کیا کہیں گے ۔ بلکہ صرف وہ کام کریں گے جو حق پر ہو اور جس پر دل راضی ہو اور ضمیر مطمئن ہو ۔
رہے نام اللہ کا۔۔
والسلام۔۔
Yar itni lambi chorty kesy ho kahan sy laty ho aisi chussain
ReplyDeleteYaken jano tmhra nikkah ho bh jay hmen yaken nai ana 😂😂😂so don't feel Bad
Chal ab nikal Chusser