! خون مانگو گے ؛ خون دینگے



     مزاج کی بات ہے کہ ہم فطرتاً پتھر دل ثابت ہوئے ہیں - وہ بھی  اس حد تک کہ  ہمارے سامنے اگر کسی  کے اپینڈکس کو نکال کر اس سے ربر بینڈ کی خدمات حاصل کرلی جائیں تب بھی ہم بے پروا رہیں گے. اس کے برعکس ایک نقطہ بہرحال ایسا ہے کہ جس پر ہم پگھل جاتے ہیں وہ یہ کہ کسی عزیز کو ضرورت خون کی بوتل کی آن پڑے - اس پر طرفہ یہ کہ اس لہو کی حاجت عزیز کی والدہ کو ہو - اس صورت میں تو ہمارے اندر کی مامتا جاگ اٹھتی ہے گویا :- '' سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہو'' - اور ہم پکار اٹھتے ہیں کہ '' حاضر حاضر لہو ہمارا ''. 

   اسی قسم کا واقعہ - پانچ ماہ قبل پیش آیا جب ہمارے عزیر اسفند دار بھٹہ کی والدہ کو خون کی ضرورت پڑی - گرچہ یہ ہمارا پہلی بار تھا لیکن ہم نے پرواہ نہ کی اور اپنے یاماہا جنون  ایک سو سی سی چیسس نمبر 223190 پر سوار ہوئے اور بلاجھجک سیال طبی مرکز پہنچے. وہاں پنچ کر ہم اسفند سے مخاطب ہوئے اور فرمایا :  '' ہمارا خون حامل ہذا کو مطالبہ پر عطا کیا جائے گا '' ساتھ میں ہم عثمانی کو بھی لے گئے تھے کہ ضرورت دو خون کی بوتلوں کی تھی. یہاں اسفند کے متعلق اتنا بتانا لازم ہے کہ حضرت کی صحت ایسی ہے کہ آندھی کے موسم میں انہیں باہر ہوا میں جانے سے روک دیا جاتا ہے کہ موصوف اُڑ نہ جائیں. '' ہواؤں میں اڑ نہ جائیں یہ بچے سنبھال رکھ '' لہذا خون کا مثبت گروہ رکھنے کے باوجود وہ اس قابل نہیں کہ ایک قطرہ خون کا کسی کو دے سکیں. لہذا یہ فریضہ ہم نے اور عثمانی نے سرانجام دیا اور یوں پہلی بار ہم انسانیت کے کام آئے. عثمانی نے یہ دعویٰ کیا  کہ '' اب اقبال کو ہم سے پیار ہوگیا ہوگا! '' '' وہ کیسے؟ '' ہم سراپا سوال ہوئے جس پر حضرت نے یہ شعر داغ دیا کہ :-

خدا کے بندے تو ہیں ہزاروں، میٹرو میں پھرتے ہیں مارے مارے
میں تو اس کا بندہ بنوں گا : جس نے بلڈ ڈونیت کیا ہوگا 

اس پر ہم نے عثمانی کو کھڑے ہوکر سلامی پیش کی اور بجائے واپس بیٹھنے کے الٹے قدموں گھر کو ہولیے کہ اول تو خون جانے کی وجہ سے کچھ دماغ بوجھل تھا اس پر مزید یہ کہ عثمانی کا ذوقِ شاعری - اللہ اللہ 

   خیر دوسری دفعہ کا ذکر ہے کہ ہمارے ہر دل عزیز خاوندی کے ایک عزیز کی والدہ کوخون کی ضرورت پیش آئی. ہم بغیر رکے پیش پیش ہوئے. فیصلہ ہوا کہ صبح ڈی ایچ میں حاضری لگوانے کے بعد آدھی چٹھی لے کر فاطمیڈ فاونڈیشن روانہ ہوا جائے گا. ہمارے لیے اس بار خون دینا پکنک سے کم نہ تھا. اول تو ہم نے خاوندی سے کار کی چابی چھین لی اور خود چلانے لگے اور چلائی بھی ایسی زبردست کہ خاوندی کو کہنے مجبور گیا : '' شیخ تیری ڈرائیوری سے ڈرتا ہے زمانہ ''.  اس روز ہم پر یہ جہت واضح ہوئی کہ اوور آل میں انسانی عزت و حرمت کا پیمانہ فلک کو چھونے لگتا ہے. اول تو ڈاکٹر صاحب ہم سے بے حد متاثر ہوئے اور ہمیں بلڈ ٹرانسفیوژن کی کیمسٹری سمجھانے لگے. حضرت کا نام یوسف تھا لیکن حسنِ یوسف سے ان کا تعلق دور دور تک نہ تھا - ہاں مگر قابل انسان ٹھہرے تھے -  الغرض خون لینے کے بعد ہمیں جوس اور اس قسم کے لوازمات سے نوازا گیا اور ہمیں اچھا ڈاکٹر بننے کی نصیحتوں کے ساتھ رخصت کیا گیا. قارئین سے گزارش ہے کہ اوورآل کی یہ عزت صرف کالج سے باہر ہے لہذا محتاط رہیں. 

  خیر آمدم برسر مقصد - اسی واقعے کی عین تین دن بعد ہم سے اسفند نے رابطہ کیا کہ '' حضور، خون ملے گا ؟ '' ہم تو اپنے لہو کا آخری قطرہ تک برسانے کو تیار تھے مگر طبیبوں کا اصول ہے کہ ایک بار خون دینے کہ بعد چار چھے ماہ تک دوبارہ خون نہیں لیتے کہ کہیں متعلقہ فدوی ہی مریض نہ بن جائے اور بلڈ ڈونر کی بجائے خون کا مطالبہ کرنے لگے. لہذا سات خون معاف کرانے لیے ہم نے اپنی این اڑسٹھ کے سماجی گروپ میں لکھا  کہ '' لوگو! ضرورت دو بوتل خون '' بی مثبت '' کی ہے - سب کا بھلا سب کی خیر! ''. بفضلِ خدا چند ہی منٹوں میں ہم نے چار افراد کو اس عمل کے لیے تیار پایا. مگر دو کے جذبہ انسانیت کو ہم نے ٹھیس پہنچائی اور انہیں ویٹنگ پر رکھا اور دو کو  اعتماد میں لیے ہم ایک مرتبہ پھر سیال میڈیکل سنٹر روانہ ہوئے. 

 ان میں سے ایک مہربان تو ہمارا جگری گامی تھا اور دوسری محسن ہماری ہر دل عزیز رشتے کی بہن مس فوڈلز ہونا قرار پائیں. المیہ کی بات یہ تھی کہ دونوں ہی پہلی بار خون دینے کو آئے تھے. لہٰذا خوف کا بادل ان کے کرینیم  پر منڈلا رہا تھا. گامی تو گھر ہی سے مائلو اور جوس لیتا آیا. مس فوڈلز، رکشے پر سوار، ہم سے پہلے پہنچ چکی تھیں. اول اول خون کے سیمپل لیے گئے تاکہ سکرین کیا جاسکے کہ دونوں فدوی کینسر، ہیپاٹائٹس، تھیلیسیمیا، ایڈز اور اس قسم کے دیگر مہلک امراض سے محفوظ ہیں. یہ سٹیج تو باآسانی پاس ہوگئی. اصل مسئلہ تب شروع ہوا جب خون نکالنے کی باری آئی. 

چلے ہیں تو کٹ ہی جائے گا سفر مگر آہستہ آہستہ 
بھرتی ہے خون کی بوتل لہو سے مگر آہستہ آہستہ

 گامی کی حالت تو اس دوران دیدنی تھی. باتوں میں مشغول رکھنے کے لیے ہم نے حضرت سے گانوں کے متعلق باتیں شروع کردیں کہ جانب کو گائیکی کا شوق ہے. ہم نے مشورہ دیا کہ '' گامی! تم اپنا بینڈ کیوں نہیں بناتے ؟ '' جواب آیا '' شیج اس وقت میری اپنی بینڈ بجی ہوئی ہے لہذا ذرا خاموش ہوجاؤ ''. 

  ہم مگر باز نہ آئے اور منٹو کے افسانوں کا ذکر چھیڑا. حالتِ  کمزوری دیکھیے کہ اس نے خود کو اس پر لطف موضوع سے حظ اٹھانے سے قاصر پایا. آخر کار بوتل بھر گئی اور مشاہدہ پر معلوم ہوا کہ گامی خاندانی خون رکھنے والا انسان ہے جس پر ہم نے اسے جوس پیش کیا جو اس منحوس نے ایک ہی گھونٹ  میں سارا پی لیا. بعد میں کہنے لگا کہ آدمی کے دل کا راستہ پیٹ سے ہے اور اس وقت میرے دل کو ضرورت fluids کی ہے. لہذا میرا اس پر حق ہے. یہ سن کر ہم نے  اناٹومی اور فزیالوجی سے توبہ کی اور مس فوڈلز کے بیڈ کی جانب گئے کہ ان کی دل جوئی بھی تو کرنا تھی. 
  
 یہاں حالت مختلف نہ تھی بلکہ کشیدہ تر تھی. کمزوری کا عالم تو اتنا نہ تھا مگر چونکہ صنف نازک سے تعلق تھا تو جذابت کا امڈ آنا تو یقینی تھا. کہنے لگیں '' بھائی، مری آنکھوں میں آنسو ''. دل تو ہمارا یہ چاہا کہ کہیں کہ ڈاکٹر سے کہیں کہ ان کا خون بازو پر سوئی لگا کر نہ نکالیں بلکہ ان کے آنسو جمع کرلیں کیونکہ :-

رگوں میں دوڑتے پھرنے کے ہم نہیں قائل 
جب آنکھ ہی سے ٹپکے تو پھر لہو کیا ہے'' 


مگر ہم نے بھائی ہونے کا حق ادا کرتے ہوئے کہا کہ :-
پلکوں سے گر نہ جائیں یہ موتی سنبھال رکھ 

  خیر اس کے بعد ہم نے کوشش کی کہ فوڈلز کی بات ایک عدد بہترین دوست مس حانیطہ سے کرادی جائے کہ ہم جنس ایک دوسرے کا دکھ بہتر سمجھتے ہیں مگر ناکام. مس حانیطہ نے تین مرتبہ کال کیے جانے کے باوجود فون نہ اٹھایا جس کی قابلِ قبول وضاحت انہوں نے بعد ازاں یوں پیش کی کہ '' جنابِ شیخ! ہم ذرا پرستان کے چکر پر تھیں - اب حکم کریں '' جواباََ ہم نے عرض کی کہ :-

'' نہ جانا کہ خون دیتا ہے کوئی 
بہت دیر کی مہرباں آتے آتے '' 

  مرتے کیا نہ کرتے، مس فوڈلز کا دھیان بٹانے کے لیے ہم نے جابجا دیکھا اور پھر کچھ سوچ کر فیض و جالب کا موازنہ شروع کردیا. اپنے مطلب کی بات سن کر محترمہ کچھ مطمئن ہوئیں اور فیض کے حق میں نعرے بازی کرنے لگیں. اسی دوران خون کی بوتل بھی بھر گئی اور ہم سراپا شکر ہوئے کہ اس سٹیج سے دونوں فدوی کامیاب گزرے. 
  
   بعد ازاں چائے کا دور چلا. گامی نے نعرہ لگایا  کہ میٹھی ہو اور بہت ہو مزید کہنے لگا '' کہ اب میری شوگر low  ہورہی ہے. لہذا چینی زیادہ ڈالی جائے '' اس کے برعکس فدوی نمبر دو یعنی مس فوڈلز نے شوگر فری چائے پینا پسند کی جس سے ہمیں ان کی Health Consciousness کا علم ہوا. بالآخر ہمیں اسفند اور اس کے والدین نے ڈھیر ساری دعاؤں میں رخصت کیا اور اس روز ہم نے سیکھا کہ '' ہے زندگی کا مقصد اوروں کے کام آنا '' دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اسفند اور خاوندی دونوں کی والدہ کو صحت کاملہ دے. اور ہماری ماؤں کا سایا ہم پر سلامت رکھے. 

  بات یہ ہے کہ مائیں تو بچوں کے لیے دعا کرتی ہی ہیں ہمارا بھی فرض ہے کہ انکی خدمت کا حق ادا کریں. نہ کہ یہ ان ماؤں کے ساتھ لگے رہیں جن کے متعلق کہا جاتا ہے کہ '' اے ہر ٹائم کیڑی ماں نل گل کردا رہندا اے توں؟ '' ( یہ ہر وقت کونسی ماں سے بات کرتے رہتےہو تم؟) '' ماں کی قدر وہ جانتے جن سے یہ نعمت خدا نے واپس لے لی ہے. اس موقع پر اس بات کا اضافہ کرلیں کی ماں کے پاؤں تلے جنت ہے تو باپ بھی جنت کا دروازہ ہے!! یہ بات اس لیے لکھ دی ہے کہ کہیں والد بزرگوار اسے پڑھتے ہوئے ناراض ہی نہ ہوجائیں کہ '' برخودار! تو اپنی ماں دا زیادہ لاڈلا ایں؟ ''  ڈالر کے جیل پین کی راونی دیکھیے بات خون دینے سے چلی اور کہاں سے کہاں پہچ گئی. بس یہیں ختم!! 

رہے نام اللہ کا
والسلام... 


Comments

Post a Comment

Popular posts from this blog

لُڈو اِسٹار اور گامی - فکاہیہ

قصہ ہمارے نکاح کا

وہ ساتھ بیٹھ جائے تو رکشہ بھی مرسڈیز