Posts

Showing posts from April, 2019

سینما اور مار ویل کپتان

Image
جنابِ من ! عرض کچھ یہ ہے کہ ہمیں بچپن ہی سے سینما گھر جانے کا شوق رہا ہے. بالخصوص، جب ہم سنتے تھے کہ فلاں فلم کی ریلیز پر '' کھڑکی توڑ '' رش ہوا چاہتا ہے، تو ہمارا یہ اشتیاق مہنگائی اور آبادی کی طرح بڑھتا چلا جاتا تھا. مگر موقع ہمیں تھیٹر جانے کا کبھی نہ ملا. وجہ اس کی یہ نہ تھی کہ شاید ہم کچھ خاص نیک تھے یا فضول کاموں پر خرچ نہیں کرتے  تھے ( بقول گامی '' شیخ! تم جائز کاموں پر بھی پیسے خرچ نہیں کرتے - بُخیل کہیں کے '' )  بلکہ وجہ اس کی یہ تھی کہ ہمیں کبھی کسی نے اس سلسلۂ گناہ کی دعوت ہی نہ دی تھی، تو ہم بھی بس یہ گنگناتے تھے :- واں وہ غُرورِ عز و ناز، یاں یہ حجابِ پاسِ وضع  کالج میں ہم ملیں کہاں، سینما میں وہ بلائے کیوں  لیکن پھر ایک دن ایسا آیا کہ گامی اور ہمارے درمیان دوستی کے معاہدے پر دستخط ہوئے اور اس واقعے کے عین 13 دن بعد جب کہ ہم ابھی گیارھویں کے پرچوں سے فارغ التحصیل ہوئے تھے ۔ گامی ہماری طرف آیا اور کہا '' میاں ! آؤ ذرا کہیں چلتے ہیں. '' " مگر ہم کدھر کو چلے؟ '' ہم سراپا سُوال ہوئے.  جواباً گامی ن...

شہڑِ محبوب اور فلسفہ

Image
  یہ فلسفہ بیان کرنے کی نوبت یوں آئی کہ ہمارے احباب حیران ہیں کہ جناب شہرِ زندہ دِلاں کو فدوی مسلسل شہڑِ محبوب کیوں لکھ رہا ہے؟ ہمارے سگے برادرمِ عزیز نے تو اسے اس حد تک سنجیدہ لیا کہ ہیلتھ ایکسپو پر جاکر، بجائے اس کے کہ وہاں ادویات اور ان کے بنانے کے طریقہ جات پر ریسرچ کرتے، فوری وہاں کے بُکنگ روم میں گئے اور استفسار کرنے لگے : '' جناب! ہمیں اپنے چھوٹے برادر کی دعوتِ ولیمہ ایکسپو سنٹر میں سرانجام دینی ہے چونکہ اس کا محبوب اسی شہر میں رہتا ہے - لہذا اس کی quotation دیں ذرا! ''    بات اگر یہاں تک ہوتی تو ٹھیک ہوتا مگر ہماری بھاوج جو بلاشبہ ہمارے برادرم عزیز کی زوجہ ہونا قرار پائی ہیں وہ بھی اس بات پر یقین کرچکی تھیں. تازہ تازہ بنی ایم تھری فور موٹر وے پر جب ہماری کار خراب ہوئی اور ملتان سے لاہور کا ساڑھے تین گھنٹے کی ریکارڈ مدت کا مختصر سفر ہمارے لیے نو گھنٹے طویل ہوگیا ، تو ہماری بھاوج جو اس سفر میں شومئی قسمت ہمارے ساتھ تھیں، کہنے لگیں : '' تمہارا محبوب کتنا بے تاب ہوگا، وہ بے چارہ (ہمارا محبوب بلاشبہ بے چارہ ہی ہوگا) کینال بینک روڈ پہ موجود اشفاق ا...

! خون مانگو گے ؛ خون دینگے

Image
     مزاج کی بات ہے کہ ہم فطرتاً پتھر دل ثابت ہوئے ہیں - وہ بھی  اس حد تک کہ  ہمارے سامنے اگر کسی  کے اپینڈکس کو نکال کر اس سے ربر بینڈ کی خدمات حاصل کرلی جائیں تب بھی ہم بے پروا رہیں گے. اس کے برعکس ایک نقطہ بہرحال ایسا ہے کہ جس پر ہم پگھل جاتے ہیں وہ یہ کہ کسی عزیز کو ضرورت خون کی بوتل کی آن پڑے - اس پر طرفہ یہ کہ اس لہو کی حاجت عزیز کی والدہ کو ہو - اس صورت میں تو ہمارے اندر کی مامتا جاگ اٹھتی ہے گویا :- '' سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہو'' - اور ہم پکار اٹھتے ہیں کہ '' حاضر حاضر لہو ہمارا ''.     اسی قسم کا واقعہ - پانچ ماہ قبل پیش آیا جب  ہمارے  عزیر اسفند دار بھٹہ کی والدہ کو خون کی ضرورت پڑی - گرچہ یہ ہمارا پہلی بار تھا لیکن ہم نے پرواہ نہ کی اور اپنے یاماہا جنون  ایک سو سی سی چیسس نمبر 223190 پر سوار ہوئے اور بلاجھجک سیال طبی مرکز پہنچے. وہاں پنچ کر ہم اسفند سے مخاطب ہوئے اور فرمایا :  '' ہمارا خون حامل ہذا کو مطالبہ پر عطا کیا جائے گا '' ساتھ میں ہم عثمانی کو بھی لے گئے تھے کہ ضرورت دو خون کی بوتلوں...