لکھائی






 ہم نے پڑھ رکها ہے کہ "ہر بچہ فطرت سلیم پر پیدا ہوتا ہے" . چونکہ ہمارے بزرگوں نے اس امر کی بہ سند (برتھ سرٹیفیک) تصدیق کی ہے کہ  جب ہم پیدا ہوئے تهے تب بچے تهے اس لیے ہم پر بهی یہ شق لاگو ہوتی ہے . تاہم معاشرے کی ناگزیر روایات کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوۓ احباب نے اپنا اولین فریضہ جانتے ہوۓ ہماری فطرت بدلنے کا بیڑہ کچھ یوں اٹھایا کہ ہمیں ایک عدد سکول میں داخل کرا دیا جہاں شب و روز ہماری فطرت سلیم کو بدلنے پر کام ہوا .

اول اول ہمیں جس اسکول میں بهیجا گیا وہاں سب کچھ ہوتا تها سوائے پڑهائی کے . نتیجہ اس کا یہ ہوا کہ ہم نے قطار بنا کر سیڑهیاں چڑهنے'اترنے ، سڑک کے پار لگے پانی کے کولر سے پانی پینے اور  تقسیم انعامات کی تقریب میں شرکت کرنے میں ید طولی حاصل کرلیا . اس اسکول کی عمارت کی مدح صرف اتنی بیان کرنا مناسب سمجهتے  ہیں کہ جہاں گاڑی کھڑی کرنی چاہیے تھی وہاں ایک مکعب نما کمرہ بنایہ گیا تھا جو بلا شبہ جزائر مالٹا کے قومی عجائب گھر برائے علم آثار قدیمہ میں موجود اس شیشے کے  بکسے کی مانند تها جس میں ازمنہ وسطٰی کی انسانوں کی استعمال شدہ اشیاء جیسے صراحی ، نقشے وغیرہ نمائش کے لیے رکهی گئی ہیں . اس میں یہ بات  بہرحال قابل ذکر ہے کہ اس بکسے نما کمرہ جماعت میں ہمیں اور ہمارے ہم جماعتوں کو رکها جاتا تها.


 خیر آمدم بر سر مقصد اب ہماری ایک دور دراز  کی آنٹی ( جو رشتے میں بیک وقت ہماری خالہ بهی لگتی تهیں اور پهوپهی بهی ) کو ہمارا خیال آیا اور انہوں نے والدین کے کان بهرے. لہذا ہمیں ایک بہتر اسکول میں داخل کروا دیا گیا. اس اسکول کے منشور میں سر فہرست یہ تها کہ" طلبہ کی لکهائی پر خصوصی توجہ دی جائے گی " لیکن ستم ظریفی یہ تهی کہ اس منشور میں صرف ایک ہی شق تهی .اس امر  کا مقصد یہ تها کہ جب بچے جوان ہوں تو ملک و قوم کے معمار بنیں اور وال چاکنگ گے فرائض سر انجام دیں. اسکی  مصلحت یہ کہ وال چاکنگ کا ہمارے دیس میں "بہت سکوپ " ہے .جابجا اشتہار لکهنے پڑ جاتے ہیں. جیسا کہ پطرس صاحب نے لاہور کی دیواروں کا حال بیان کیا ہے کہ ان پر سیمنٹ گارے کے ساتھ ساتھ اشتہاروں کا بهی پلستر کیا جاتا ہے. مزید یہ کہ اس میں ترقی کے بہت امکانات  ہیں . پهر یہ کہ ادهر ضلعی انتظامیہ کو ہوش آیا اور ادهر انہوں نے ایک  مزدور کو حکم دیا کہ اس اشتہار پر سفیدی کردو جس سے چونے والوں کا کام بهی چلا اور مزدور بچارے کو    کمیٹی دفتر کے چار چکر لگانے کے بعد اللہ اللہ کر کے مزدوری ملی.اس سے ملکی معیشت میں بہتری آئی غرض جی.ڈی.پی. میں بهی37 فیصد اضافہ ہوا _ لیکن ایسا بہت کم دیکهنے میں آیا کہ انتظامیہ  کے لوگوں کو ہوش آیا ہو کیونکہ ان کا  رجحان بجٹ بنانے کی طرف رہا ہے جس کو لاگو کرنے کی ذمہ داری سے وہ خود کو مستثنٰی خیال کرتے رہے  ہیں_  لہذا یہ ذمہ داری  کسی این. جی.او. نے سرانجام دے  دی.اس سفیدی سے وال چاکنگ کرنے والے کو اگلا اشتہار لکهنے میں بہت  سہولت ہوئی
..

وائے نادانی   کہ ہمیں یہ حکمت اس اسکول سے فارغ ہونے کے بات پتا لگی اور  دوران قیام ہم نے اس کا خاص اثر قبول نہ کیا. نیز اپنی فطرت پر دامے درمے قدمے سخنے ڈٹے رہے  . ابتدا میں تو ہماری لکهائی کسی حد تک قابل دید تهی لیکن جوں جوں ہم ہائی اسکول کی طرف گامزن ہوئے توں توں یہ بهدی ہوتی چلی گئی . اب عالم یہ ہوگیا کہ ہمیں استادوں اور دوستوں کے طعنوں تشنوں کا سامنا ہوا تو تین سال اس عمل کو برداشت کیا اور بالآخر لکهائی ٹهیک کرنے کی ٹهانی .



اس سلسلے میں  ایک ابن آدم کے ہنر سے استفادہ  کیا جو خود کو خطاطی کا ماہر کہتا تها اس آدم زاد نے ہمیں سکهایا کہ ایک ہی وقت میں کئی کام کیسے کرنے ہیں .وہ اس طرح کہ ہم  605 مارکر سے خطاطی بهی کرتے تهے اور اس کی "پهڑیں" بهی سنا کرتے تهے جس کے جواب میں خوشامدی جملے بهی بہر حال کہنے ہوتے تهے کیونکہ کسی کا دل رکھ لینا بہر حال ثواب کا کام ہے.


خیر لکهائی تو ہماری بہتر ہوگئئ جس کے معترف ہمارے  اساتذہ بهی تهے لیکن اونٹ کی ساس آخر کب تک خیر مناتی ؟ اگلے امتحانات آنے تک لکهائی پهر بهدی ہوگئی اور پهر یہ سلسلہ جاری رہا  .گویا آج ہم اس نتیجے پر  پہنچے ہیں کہ پہلے ہماری لکهائی فطرتا بے کار تهی لیکن اب اسے بد نما بنانے کے لیے ہم نے باقائدہ ٹرینگ لی تهی . ہمارے  دوست  حمید اکبر گامی کا خیال ہے کہ اس میں ہمارا اپنا قصور ہے کیونکہ ہم نے کبهی اس سلسلے میں دل وجان سے کوشش ہی نہیں کی . لیکن ہم ان سے  متفق نہیں . ہم تو اتنا جانتے ہیں کہ لمبی دوڑ میں زمانہ لکهے ہوئے کی قدر کرتا ہے نہ کہ  لکهائی کی  . بهلا  کبهی کسی نے پوچها ہے کہ غالب، میر یا برنڈ شا کی لکهائی کیسی تهی.


 مگر اے ہم نفسو!
 یہ بهی ایک اٹل حقیقت ہے کہ آخر میں نہ لکها ہوا بچے گا نہ لکهائی . نہ لکهاری باقی رہے گا نہ قاری .
   ..... رہے نام آللہ کا !!

Comments

Post a Comment

Popular posts from this blog

لُڈو اِسٹار اور گامی - فکاہیہ

قصہ ہمارے نکاح کا

وہ ساتھ بیٹھ جائے تو رکشہ بھی مرسڈیز