چائے کا بیان - فکاہیہ - عبداللہ شیخ





عمر بهر صحرا نوردی کی ، مگر شادی نہ کی 
قیس دیوانہ بهی تها کتنا سمجهدار آدمی ... 

آپ سوچ رہے ہوں گے کہ  شاید ہم نے سردیوں میں سوئی گیس کنکشن پر فریج کا ترک شدہ کمپرسر لگایا ہوگا. جس کے نتیجے میں سی-این-جی جیسی پیچیدہ انڈسٹری کو گهریلو صنعت کے زمرے میں لانے پر ہمیں بجائے اس کے کہ داد ملتی ،جرمانہ ہوگیا ہوگا. اور اس تمام صورت حال سے ہم بوکهلا گئے ہونگے. گویا ای مفروضے کی بنیاد پر ہمیں چائے اور قیس میں کوئی فرق نظر نہ آیا ہوگا. لہذا دونوں کو ایک ہی لاٹهی سے ہانکتے ہوئے '' چائے کے بیان '' کی ابتدا میں  ضمیر جعفری  کا غیر متعلقہ شعر لکھ دیا ہوگا. لیکن ٹہرئیے ! واضح رہے کہ :-

ہم اگر چائے کے'' خدوخال'' بتانے لگ جائیں 
صرف'' پتی'' پہ کئی ایک زمانے لگ جائیں 

لہذا اس کے خدوخال پر جانے سے پہلے اس کے تعلقات ثابت کرنا لازم ہے. ہمارے دوست سلیمانی( جن کے علامہ ہونے پر ہمیں شک ہے ) دعویدار ہیں کہ قیس کو مجنوں بنانے میں کلیدی کردار دراصل چائے کا ہی ہے. ہوا کچھ یوں کہ قیس کو لیلیٰ سے محبت ہوگئی . معاملات کو شرعی حدود میں لانے کے لیے قیس اپنے بزرگوں کو لیے لیلیٰ کے ہاں پہنچ گیا. رواج کے مطابق لیلیٰ کو حکم ہوا :-  

" چار گلاس چائے مع شکر  کے پیش کی جائے" .
  (کھنڈرات سے ثابت ہوا ہے کہ اس دور میں چائے گلاس میں پی جاتی تھی. اب بھی سرحد پار کچھ علاقوں میں یہ رواج ہے) 

اب کیا تها . لیلیٰ بیچاری گهبرا گئی اور چائے میں بجائے اس کے کہ شکر ڈالتی ، نمک ڈال دیا. اب کیا تها . ایسا ہنگامہ ہوا کہ الامان .ابا جان نے تو یہاں تک کہ دیا کہ لڑکی کہ گهر والوں نے چائے تک بنانا نہیں سکهائی تو باقی تربیت کیا خاک کی ہوگی . ہونے والے خسر صاحب بهی بچهل گئے اور خوب تین پانچ ہوئی . قیس سمجھ گیا کہ بات گئی پهر ہاتھ سے  . لہذا ابا کو لیے نو دو گیارہ ہولیا. رات بهر تارے گننے کے بعد صبح ہوتے ہی صحرا نوردی پر نکل گیا . اس دن سے اسے مجنوں اور دیوانہ جیسے القابات سے نوازا جانے لگا. سلیمانی نے اضافہ کیا ہے کہ اگر قیس کو "   سوشل میڈیا تک رسائی دے دی جاتی تو وہ اس مسلئے میں نہ پڑتا بلکہ آرام سے گهر میں پڑا سارا دن موبائل فون پر یوٹیوب پر بے کار ویڈیوز دیکھتا رہتا. گویا وقت برباد کرنا مقصود تھا چاہے صحرا میں ہو یا فیس بک پر. 

(  علامہ امجد سعید سلیمانی _ستارہ غیر امتیاز ، تمغہ سستی کے حامل  _  نے  یہ واقعہ  بغیر سند کے نقل کیا ہے جو چین کے علاقے تبت کے دارالحکومت لہاسا میں پیش آیا - حوالہ - چائے اور لیلیٰ مجنوں کی من گهڑت داستان - صفحہ نمبر 9211 ) 

خیر آمدم برسر مقصد؛ چائے کے فضائل و خدوخال کسی ذی عقل سے پوشیدہ نہیں ہیں . گامی نے تو یہاں تک کہا ہے  کہ انسان کو پیدا ہی اس لیے کیا گیا ہے کہ وہ چائے بنائے خود بهی پیے  اور مہمانوں کو بهی پلائے . اکثر کہتا ہے :-

'' چائے'' سے کس کو رستگاری ہے 
َآج '' تم پلاؤ'' ، کل ہماری باری ہے 

ہمارا یہ حساب ہے کہ کوئی محبت سے چایے پلائے تو انکار نہیں کرتے . ہاں اگر کسی کو پلانی پڑ جائے تو ہم پر غشی طاری ہوجاتی ہے. اجمال اس تفصیل کا کچھ یوں ہے ہم نے چائے بنانے کا طریقہ اپنے برادر بزرگوار سے سیکها . لیکن کمی ہم میں یہ رہ گئی کہ ہم چار کپ چائے کا سامان کیتلی میں ڈالیں تو سڑنے کہ بعر صرف اڑهائی کپ چائے بنتی . ایک مرتبہ گیارہ افراد اکٹهے آن وارد ہوئے  ان کو دیکھتے  ہی ہمارے "ہاتهوں کے فاختہ اڑگئی '' اڑ گئی .  ہماری سمجھ میں یہ نہ آیا کی کتنے کپ بنائیں تو سڑنے کے بعد متوقع مقدار میں چائے بنے . ہم بوکهلا گئے. ہم نے اس لمحے موت کی خواہش کی لیکن صد ہزار شکر کہ اسی وقت گامی ہماری طرف آنکلا اور اس نے یہ فرائض سرانجام دیے گویا :-

دل کو سکون روح کو آرام آگیا 
موت آگئی یا '' حمید اکبر گامی'' آگیا 

بہرحال، چائے بنانا "لوہے کے چنے چبانے" سے مترادف ہے  ہے.یوسفی صاحب نے انڈے کے متعلق لکھا ہے کہ اسے پھوہڑ سے پھوہڑ خاتوں بھی بنائے تو بھی خراب نہیں بنتا. چائے کا معاملہ الگ ہے. اس کے بنانے کہ  کم و بیش تین سو باون طریقے ہیں اور تمام میں قدر مشترک یہ ہے کہ چولہے پر اگ جلانا لازم ہے . یہ ہمارا ذاتی خیال تها لیکن ایک دن ہمیں خاوندی نے  بتایا کہ اب چائے کو اوون اور الیکٹرک چولہے پر بغیر آگ لگائے بنانا ممکن قرار پایا ہے . اسی طرح الیکٹرک کیتلی بھی دستیاب ہے. ہم سائنس کی اس ایجاد پر نالاں ہیں کیونکہ اس سے ہم ایسے آگ لگانے والوں کا کاروبارِ زندگی متاثر ہونے کے خدشات ہیں . مزید یہ کہ اب پتی کی بجائے ٹی-بیگ کا استعمال عام ہے.  بقول خاوندی  اس ٹی بیگ کی فضیلت یہ بھی ہے کہ اسے جوتوں میں رکھ کر   بدبو بھی دور کی جاسکتی ہے. یعنی

پتی سے بہتر ہے ٹی بیگ کا ہونا 
اس سے جوتوں کی بو بھی جاتی ہے

اطلاعات  کے مطابق چائے کے پودے کا اصل وطن مشرقی چین ہے. ہم مگر چائے امپورٹ کرتے ہیں.  کچھ سالوں قبل پاکستان کے علاقے'' شنکیاری'' میں  چائے کی کاشت پر کوشش کی گئی ہے  مگر بعد میں یہ منصوبہ   " یہودیوں کی سازش" کے نذر ہوگیا . اس کاشت کو ویسے بهی شروع  نہیں ہونے دینا چاہیئے کیونکہ اس سے امپورٹ کا کاروبار متاثر ہوسکتا ہے ، کاشتکاروں کے لیے نئے ذرائع پیدا ہوسکتے ہیں اور ملکی معیشت بهی بہتر ہونے کا خدشہ ہے جس سے ملک ترقی کرے گا اور یہ حکمرانوں کے لیے فائدے کی بات نہیں. واضح رہے کہ پاکستان چائے کے فی بندہ استعمال کے لحاظ  سے دنیا میں ساتویں نمبر پر آتا ہے . ہمیں اس میں تردد کر کے کم از کم ٹاپ تھری میں آنا چاہیے. بقول عثمانی :-

خدا کرے مری ارض پاک پر اترے 
وہ'' فصلِ چائے '' جسے اندیشہ زوال نہ ہو 

عموماً اس مشروب  کی اہم اقسام یہ ہیں :- 
1. سفید چائے
2. پیلی
3. اولانگ
4.کالی چائے
5. کشمیری چائے  
6. لپٹن کی چائے

مندرجہ بالا  میں ہماری پسندیدہ کشمیری چائے ہے . باقیوں کے متعلق ہم زیادہ نہیں جانتے . ہاں ایک  قسم کی چائے جب فارس گئے تهے وہاں پر پینے کو ملی تهی . وہ لوگ اسے قہوہ بولتے ہیں اور اسے دودھ  کی حاجت سے مستثنیٰ خیال کرتے ہیں .

جو کالی چائے ہے وہ گامی کی پسندیدہ ہے. اٹھارہ سال مستقل استعمال کے بعد گامی نے مگر یہ چائے پینا چھوڑ دی. موقف اختیار کیا کہ اس میں کالی بیگم ملنے کا احتمال ہے. ہاں مگر اس نے سگریٹ-نوشی شروع کردی. اب پھیپھڑوں کے مرض کو لیے بیٹھا ہے. . ہم وثوق سے کہتے ہیں کہ اگر اس نے یہ عادت جاری رکھی تو مستقبل قریب میں تپ دق اور مستقبل بعید میں پوشیدہ امراض کا سامنا کرے گا. 

قیمت ِ صحت گامی سے پوچھو 
کہ تندرستی ہزار نعمت ہے 

سب سے اہم چائے '' لپٹن کی چائے '' ہے . اسے پنجابی میں" لپٹن دی چا" کہتے ہیں .کچھ اہل دل لکهاریوں نے اس "چا کو چاہ" بهی لکها ہے . ذرائع سے پتا لگا ہے کہ محکمہ بہبود آبادی کی کوشش ہے کہ اس "چاہ" پر پابندی لگائی جائے یا کم از کم اس کے استعمال کو محدود کیا جائے تاکہ آنے والی نسلیں "ولادت" کی بیماری سے بچ سکیں اور موجودہ وسائل اور آبادی میں اضافے کی شرح میں توازن قائم کیا جائے . عوام بہرحال اس حوالے سے سنجیدہ نہیں اور یقین رکهتے ہیں کہ رزق دینے والا اللہ ہے اور اس کے لیے تگ و دو کی ضرورت نہیں. ہان یہ ضرور ہے  کہ حالات کی خرابی کی ذمہ داری حکومتِ وقت پر ڈال دی جائے . اللہ اللہ ..

حیرت کی بات ہے کہ چائے بھی '' فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں '' سے مستثنیٰ نہیں. اس میں تین مکتبِ فکر ہیں. تیسرے کا خیال ہے چائے کا انسانی طبع پر کوئی خاص اثر نہیں . ان کی تفصیل یہ ہے کہ چائے سے ان کو خاص التفات نہیں ہوتا. مفت مل.م جائے تو پی لیتے ہیں کہ '' مفت ہاتھ آئے تو برا کیا ہے '' 
.پہلے دو مکتبِ فکر  چائے کی دل و جان سے عزت کرتے ہیں اور جو انہیں چائے بنا کر پلا دے اس کو اپنا گرو مان لیتے ہیں. انہیں اس سے غرض نہیں کہ '' چائے اپنی فطرت میں نوری ہے یہ ناری ہے '' بلکہ اس کے اثر و رسوخ پر ہے. مکتب فکر اول کا خیال ہے کہ چائے پینے سے نیند اڑ جاتی ہے. جبکہ  دوم کا خیال ہے کہ چائے پینے سے نیند کا غلبہ بڑھتا جاتا ہے.  پانی پت کی لڑائی کی بنیادی وجہ بھی یہی بنی تعلق ہے. فریقین میں سے افغانیوں کا موقف مکتب فکر اول کا تھا اور ہندوستانیوں کا موقف دوم کا تھا. انجام یہ ہوا کہ گروہ اول نے ایک سازش کے تحت گروہ دوم کو چائے پلا دی جس سے ہندوستانیوں کو نیند آگئی اور وہ جنگ ہار گئے. آج بھی اس چائے کا اثر موجود ہے اور قوم خواب غفلت میں مبتلہ ہے. بقول اقبال :-

نہ سمجھو گے تو مٹ جاؤ گے اے ہندوستان والا 
تمہاری'' چائے'' بھی نہ رہے گی '' چائے خانے '' میں 

دریا کو ڈیرھ لیٹر کی بوتل میں بند کریں تو ہم یہ. جانتے ہیں کہ شیکسپیئر کا مشہور مقولہ ہے 
'' کوئی چیز بذات خود اپنی فطرت میں اچھی یا بری نہیں ہوتی بلکہ ہمارا عمل اسے بنا دیتا ہے ''
دراصل تب ہی وجود میں آیا ہوگا جب شیکسپیئر چائے میں ہمارے'' دیس کا بسکٹ گالا '' ڈبو ڈبو کر کھا رہا ہوگا. ہمارا مگر  ایمان ہے کہ چائے بری شہ نہیں ہے . بلکہ اچھی ہے. بہت اچھی ہے. بہت بہت بہت اچھی ہے.  حیرانی یہ ہے کہ مندرجہ بالا ہزار ہا فضائل کے باوجود کچھ لوگ چائے کو نشہ کہتے ہیں. نشہ تو ایک لعنت ہے. جبکہ چائے تو رحمت ہے. ہاں یہ ضرور ہے کہ کچھ لوگ اس کے عادی ہو جاتے ہیں اور پھر اس کے بغیر گزارا نہیں کر پاتے. یہ ان کا ذاتی معاملہ ہے. ہم مگر اتنا جانتے ہیں کہ اس جہاں کی رونقیں چائے ہی کی بدولت ہیں. 

'' چائے ہے کپ '' میں یا پریاں قطار اندر قطار 
اودے اودے نیلے نیلے پیلے پیلے پیرہن

آخر میں اتنا کہیں گے کہ غالب بھی چائے کا مداح تھا. یہی وجہ ہے کہ کہہ گیا :-
'' میٹھی ہو اور بہت ہو ''

والسلام... 


Comments

Popular posts from this blog

لُڈو اِسٹار اور گامی - فکاہیہ

قصہ ہمارے نکاح کا

وہ ساتھ بیٹھ جائے تو رکشہ بھی مرسڈیز