صبح کی حاضری - فکاہیہ
تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ صبح کی حاضری کو یقینی بنانے کے تین اہم جزو ہیں
نمبر1
ویچر چھیدن ہال( جسے حرف عام میں ڈی ایچ یعنی ڈائسیکشن ہال کہتے ہیں ) میں وقت پر پہنچا جائے. محض لمحہ بھر دیری پر دروازہ آپ کے منہ پر دے کر مارا جائے گا.
نمبر 2
کہ آپ کے پاس ایک عدد اوور آل موجود ہو
نمبر3
ایک عدد ڈی ایچ کارڈ
.
جہاں تک تعلق صبح وقت پر پہنچنے کا ہے تو اس کے لئے لازم ہے کہ صبح گھر سے وقت پر نکلا جائے. گھر سے وقت پر نکلنے کے لئے لازم ہے کہ وقت پر تیار ہوا جائے. وقت پر تیار ہونے کے لئے لازم ہے کہ وقت پر اٹھا جائے. وقت پر اٹھنے کے لئے لازم ہے کہ وقت پر سویا جائے
گویا مندرجہ بالا جو علامات ہیں یہ تمام سحرخیزی کی ہیں اور بفضل خدا ہم اس بیماری میں مبتلا نہیں ہیں ہاں مگر گامی کو یہ عادت ہے اور اس کے نزدیک یہ بہت فضیلت والی بات ہے. وجہ اس کی یہ ہے کہ گامی اقبال کو اپنا مرشد مانتا ہے اور اقبال نے یورپ میں رہتے ہوئے لکھا ہے کہ
زمستانی ہوا میں گرچہ تھی شمشیر کی تیزی
نہ چُھوٹے مجھ سے لندن میں بھی آدابِ سحر خیزی
گامی کے نزدیک سحرخیزی کا بہترین اسلوب مگر مختلف ہے. اس کا کہنا ہے کہ '' جیسے عشقِ مجازی میں مار کھانے کے بعد ہی عشقِ حقیقی ممکن ہے اسی طرح شب بیداری ہی کہ ذریعے سحر خیزی حاصل کی جاسکتی ہے. یعنی رات کو سویا ہی نہ جائے اس طرح صبح وقت پر اٹھنے کی ضرورت ہی پیش نہ آئے گی کہ پہلے ہی انسان جاگتا ہوگا.
سوال اب یہ پیدا ہوتا ہے کہ رات کو جاگ کر آخر کیا کِیا جائے. اس میں اوّل تاویل تو یہ ہے کہ بی ڈی چوراسیہ پڑھ لی جائے یہ مگر جب تک موقع امتحانات کا نہ آئے، عام دنوں میں پڑھنا، ایسا ہی ہے جیسے امن کے دنوں میں بھارت ایل او سی پر سرجیکل سٹرایئک کرتا ہے. تو اگر پڑھنا نہیں تو آخر کیا کِیا جائے. آیا کہ '' گیم آف تھرونز'' دیکھ لیا جائے یا پھر'' منٹو کے شاہکار فسانے '' پڑھ لیے جائیں. ایسا کرنے پر ہم پہ بے راہ روی کی تہمت لگ سکتی ہے. لہذا اس چیز کو ذہن میں رکھتے ہوئے کہ لوگ کیا کہیں گے ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ ہم ہر رات مستقل سویا کریں گے کہ نہ سونے کے سبب ہمارے '' حیاتیاتی تال '' (بائیو رِدم) بھی متاثر ہوسکتے ہیں. مزید یہ کہ صبح وقت پر اٹھا کریں گے. اس کے لئے ہم اپنے فون پر پانچ عدد الارم لگائیں گے جن کا فاصلہ محض 60 60 سیکنڈ ہو گا. پھر ہر تین منٹ بعد دو الارم ایک دوسرے سے مل جائیں گے تو اس طرح ہمیں دو گانوں کا حظ اٹھانے کو ملے گا مثلاً '' ٹاکی ٹاکی رُمبا'' کے ساتھ'' ان آنکھوں کی مستی کے مستانے ہزاروں ہیں. ''
یہ تو فیصلہ ہے وقت پر پہنچنے کا جہاں تک تعلق اوورآل کا ہے تو اس میں ہم اپنی ذمہ داری سے خود کو دستبردار کرتے ہیں کہ اوورآل ہماری ذمہ داری نہیں ہے. یہ ذمہ داری ہمارے والدِ بزرگوار کی زوجہِ محترمہ کی ہے کہ وہ ہمیں ہر روز ایک عدد اوور آل صاف ستھرا استری شدہ فراہم کریں اور ہماری گزارش ہے کہ ہماری یہ التجا ان تک بعینہ پہنچا دی جائے. تاکہ ہم روز استری شدہ اوورآل پہن کر آئیں اور ہماری عزتِ نفس بحال رہے.
رہی بات ڈی ایچ کارڈ کی تو جناب یہ تو ہر وقت ہمارے بیگ میں موجود ہوتا ہے. اسے گھر بھول جانے کی تُک پیدا ہی نہیں ہوتی. ہاں یہ تب ہوگا جب کبھی ہم اپنا بیگ ہی گھر بھول جائیں اور مستقبل قریب میں ایسا ہوتا نظر نہیں آتا. ہاں مستقبل بعید کی ہم ضمانت نہیں دیتے. تو جناب یہ سب کچھ تھا وہ جو لازمی ہے صبح کی حاضری کو یقینی بنانے کے لیے جبکہ صبح کی حاضری لازمی ہے امتحان میں بیٹھنے کے لئے لہذا اس کو خود پر لازم کیجئے اور ہمیں اجازت دیجئے.
بندہ پرور.
والسلام
Sheikh shb a great writing. Keep it up.A request to write on Trip of N-68. 😁😁
ReplyDeleteWould write on it next year IA 🎉💞
DeleteBuht khoob 👌
ReplyDelete💞🔥
Delete