افطار اور تربوز



یوں تو افطاری کرنا اور کروانا دونوں افعال سے ثواب ِِ دارین حاصل ہوتا ہے. مثلاً آپ نے اگر روزہ نہ بھی رکھا ہو تب بھی آپ کو افطاری نہیں چھوڑنی چاہیئے کہ ایک گناہ کے بعد دوسرا گناہ کیوں کریں؟ حقیقت مگر یہ ہے کہ مؤخرالذکر یعنی افطاری کروانے کا ثواب بدرجہ اتم زیادہ ہے اور اس نیک عمل کا اجر اس صورت میں اور بھی بڑھ جاتا ہے؛ جب فردِ دوم، فردِ اول کو اس نیت پر مدعو کرے کہ بس رب کو راضی کرنا ہے اور بدلے کی کوئی خواہش نہ ہو؛ تو اجر بحریہ ٹاون لاہور میں بنے آئیفل ٹاور ریپلیکا کی مانند بڑھ جاتا ہے.


افطاری میں سُواد آجاتا ہے.  پکوڑوں میں مواد آجاتا ہے.
شربت میں مٹھاس آتی ہے. املی میں کٹھاس آتی ہے. 
کجھور سے ڈیٹ کا سا مزہ آنے لگتا ہے.
شربتِ بادام شربتِ فولاد کا سا لطف دیتا ہے. 
سادہ پانی بھی زم زم معلوم ہوتا ہے گویا آبِ حیات. 
آبِ حیات بھی ایسا کہ جس کو محبوب کے لبوں نے پہلے چُھو لیا ہو! 
اس کی تاثیر کا کیا کہنا!! 
اللہ اللہ! 
(تحریر کے اس  رومانس بھرے موڑ پر اگر آپکو slice جوس کے اشتہار میں آنے والی محترمہ کترینہ کیف کا وہ سین یاد آتا ہے؛ جس میں موصوفہ ایک عدد آم کے ساتھ نازیبا حرکت کرتی پائی گئی ہیں تو اس میں آپ کا قصور نہیں ذرائع ابلاغ کا ہے. اور اگر نہیں آتا؛ تو قصور ہمارا ہے کہ ہم قاری کو اس معیار  تک نہ لے جاسکے!) 
خیر محبوب کے لبوں بارے گامی کا بیان ہے :

نازکی ان کے لب کی کیا کہیے
پھنکڑی ایک red rose کی سی ہے

بطور فردِ اول ہمارا راسخ عقیدہ ہے کہ ہمیں گزشتہ ماہِ رمضان میں جن بھی افطار پارٹیوں پر دعوت دی گئی ہے؛ وہ دراصل اوپر پیش کیے گئے نیک نظریے پر ہی مبنی تھیں. لہذا ہم پر واپس ان کی دعوت کرنا لازم نہیں آتا. ایسوں سے ہم یہ ضرور کہیں گے :-

تم کو ان سے ہے دعوت کی امید 
جو نہیں جانتے افطار کیا ہے 

اس کے برعکس؛ ان احباب سے ہم سخت نالاں ہیں؛ جو ہمیں افطار پر نہ بلا کر ایک بڑی سعادت سے محروم رہے. نہ صرف ان کے لیے یہ دنیوی رنج کی بات ہے بلکہ آنے والے دور جو بقول جنید جمشید '' قیامت کا منظر قریب آرہا ہے، زمانہ وہ ایسا عجیب آرہا ہے '' میں پچھتاویں گے. ان احباب کے لیے ایک ہی صورت ہے کہ کسی روز غروب آفتاب کے وقت دعوت کا اہتمام کریں تاکہ ساتھ ساتھ سورج کا درس بھی  مل جائے جو بقول اقبال" روز کہتا ہے کہ مغرب کی طرف جاؤ گے تو ڈوب جاؤ گے" . ہماری سمجھ میں یہ بات بحثیت قوم اس لیے نہ آتی کہ ہم اس لیکچر میں جسے حرفِ عام میں زندگانی کہتے ہیں صرف حاضری لگوانے آئیں ہیں کہ یہاں proxy نہیں لگتی. ہم اسے جینے کی بجائے گزارنے پہ ترجیح دیتے ہیں تو یہ بھی ہمیں گزار دیتی ہے. ہم لوگوں کی باتوں کے ڈر سے '' جیسے چل رہا ہے ویسے چلنے دو '' کا راگ الپاتے ہیں؛ گویا مہیش بٹ ہوں. واضح رہے، گامی نے اس متعلق لکھا ہے. 

'' کچھ تو لوگ کہیں گے لوگوں کا کام ہے کہنا
سو یو مسٹ ناٹ گِو آ شِٹ ٹو وٹ پیپل سے اینڈ لِو یور لائِف'' 

خیر بات غروبِ آفتاب کے وقت دعوت سے چلی تھی. واضح رہے کہ ایسی دعوت میں ہم چِڑی روزہ رکھ کے شریک ہونگے تاکہ افطاری کا سا احساس ہو. ہاں اگر آپ کے لیے ایسی دعوت کا اہتمام کرنا ممکن نہ ہو تو آپ ہمیں مندرجہ ذیل میں سے کوئی تحفہ عنایت فرمائیں. صرف اسی صورت میں ہم کہیں گے کہ '' جا تجھے معاف کیا اے دل کے توڑنے والے '' بصورت دیگر؛ آپکے ہمارے تعلقات ایران امریکہ کے تعلقات کی مانند ہوتے نظر آتے ہیں. لسٹ مندرجہ ذیل ہے :-

*ایک عدد ناول، نسیم حجازی کا جو ہم نے نہ پڑھا ہو (یعنی قیصر و کسریٰ اور قافلہِ حجاز کے علاوہ)

*ایک عدد بلیو ٹوتھ سپیکر چھوٹا جس پر ہم بنیادی طور پر ملکہ ترنم کے نغمے سن سکیں

*ایک عدد ہارڈ ڈرائیو انٹرنل 1 tb برائے لیپ ٹاپ شہباز شرہف والا

*ایک عدد کرسی جو ہماری سٹڈی کی زینت بنے اور نسبتاً ان پلاسٹک کی کرسیوں سے آرام دہ ہو جن کا استمعال ہم آج کل کر رہے ہیں

اس سے ہٹ کر بھی اگر آپ کچھ دینا چاہیں تو ہمیں قبول ہے. بقول خاوندی:
'' تحفے لینے سے محبت بڑھتی ہے. اس کے برعکس تحفہ دینے سے جیب خرچی گھٹتی ہے '' 

خیر آمدم برسرِ افطاری. 

    اجازت لینے سے پہلے ہم یہ واضح کردینا چاہتے ہیں کہ اس تمام ہرزہ سرائی کا مقصد جو اوپر کی ہے ہرگز یہ نہ ہے کہ ہمیں کسی افطاری یا تحفہ کا لالچ ہے (خدا جھوٹ لکھنے پر معاف کرے! کہیے آمین! ) بلکہ ہمارا مقصد تو یہ بیانیہ پیش کرنا ہے کہ افطاری کروانا ثواب کا عمل ہے. لہذا جنہوں نے کروائی ان کا شکریہ! جو بے چارے کسی وجہ سے رہ گئے وہ دیگر حربے اپنائیں. بہرحال یہ ضرور ہے کہ ان لوگوں کو افطار اور اس جیسی دیگر خوشیوں پر یاد رکھا جائے جو اصل حقدار ہیں اور اس کی استطاعت نہ رکھتے ہیں. اور سب سے اہم بات یہ کہ افطار کرنا کروانا آپکا حق ہے مگر اسے  سماجی رابطے کی ویبسائٹ فیس بک پر لگانے کی کیاُ تک تھی میاں! اور اس میں جو "جناب شیخ کا فلسفہ سمجھ میں میری نہ آسکا" وہ یہ تھا کہ اس قسم کی فوٹوز جو بھی ہم نے دیکھیں اس میں تربوز کو لازم پایا. ارے بھائی! افطار میں تربوز کا کیا کام!! 
کچھ تو خیال کرتے میاں... 
والسلام.

Comments

  1. واہ میاں نہایت ہی اچھے انداز میں افطاری نہ دینے والوں پر تنقید کی ہے اور شیخ ہونے کے ناطے اپنا کمرہ مفت میں بھرنے کی ناکام کوشش 😁

    ReplyDelete
  2. ہم لطف اندوز ہوئے ۔! لکھنا جاری رکھیں ��❤

    ReplyDelete

Post a Comment

Popular posts from this blog

لُڈو اِسٹار اور گامی - فکاہیہ

قصہ ہمارے نکاح کا

وہ ساتھ بیٹھ جائے تو رکشہ بھی مرسڈیز