گائے کی خوراک اور دیگر لوازمات کا بیان


گائے کی خوراک اور دیگر لوازمات کا بیان:-
از شیخ محمد عبداللہ ( ٤. ٨ . ٢.١٩)

یوں تو عید خوشی کے تہوار کا نام ہے اور بالخصوص بڑی عید پر چونکہ ران بروسٹ کا انتظام بھی ہوتا ہے تو اس کی کچھ خاص ہی اہمیت ہے. یوں بھی بڑے بُڑھوں کا قول کا ہے کہ مرد کے دل کا راستہ پیٹ سے ہوکر گزرتا ہے ( جو سائنسی اعتبار سے بہرحال مہمل ہے مگر ہم نئی بحث نہیں چھیڑتے.) لہذا ہمارے ہاں کی خواتین کی اجتماعی طور پر یہ کوشش ہوتی ہے کہ قربانی کے گوشت سے طرح طرح کے لوزمات بنائیں جائیں جس میں مٹن قورمہ، مٹن کڑاہی، مٹن کباب، مٹن روسٹ وغیرہ شامل ہیں . الغرض مشاہدے سے ثابت ہوا ہے کہ جو بھی ڈش ہوگی اس میں مٹن یا بیف کا صیغہ ضرور استعمال ہوگا. ان کا عقیدہ ہے کہ ایسا کرنے سے قربانی کے ثواب میں اضافہ ہونے کا امکان ہے جس سے ہمیں کچھ خاص اعتراض نہیں. ہاں اس سے پیدا ہونے والی دو اہم خرابیاں مگر ہم واضح کردینا چاہتے ہیں :-

1. مرغی والوں کا کاروبار ٹھپ ہوجاتا ہے.
2. معدہ کی بیماریاں عام ہوجاتی ہیں.

ان کا حل یہ ہے:-

1. ایسی ڈش متعارف کرائی جائے جس میں مٹن اور چکن کا امتزاج ہو گویا 

ایک ہی صف میں کھڑے ہوجائیں مرغی و مٹن
نہ کوئی بیف رہے نہ کوئی چکن برائلر

2. اپنے پیٹ کو حکومتی خزانہ سمجھیے اور اسے یوں کھانا دیجیے جیسے آپ ٹیکس دیتے ہیں. اگر یہ ممکن نہ ہو تو ہر دعوت کے اول و آخر دو گولیاں'' السر- ایکس '' پانی میں گھول کر پھوک ماریں اور پی جائیں. انشاءاللہ افاقہ ہوگا. ہاجمولہ کا بھی انتظام رکھیے.

جہاں انسانوں کے کھانوں کا ذکر ہوا وہیں ذرا جانوروں کی خوراک کا بھی ذکر کرلیتے ہیں کہ انسان اور جانور میں کچھ خاص فرق نہیں سوائے اس کہ جانور اپنی نسل کے دیگر ارکان کا قتل عام نہیں کرتے اور ان میں انسانیت کا جذبہ نسبتاً زندہ ہے جو انسانوں میں اب ناپید دیکھا گیا ہے. اسی طرح خاندانی منصوبہ بندی یعنی خاندان کے وسائل کے مطابق بچوں کو جنم دینا بھی ایک امتیازی خصوصیت ہے جو صرف انسانوں تک محدود ہے (چند حلقے مگر اب تک اس شِق سے استثنا ہیں. انہیں چاہیے کہ اس طرف جصوصی توجہ دیں).

خیر آمدم برسرِ مقصد جانور عموماً کھانے میں نخرے نہیں کرتے اور گھاس پھوس کھالیتے ہیں مگر قربانی کے جانوروں پر یہ اصول لاگو نہیں ہوتا. ان کے نخرے اس بہو کے سے ہوتے ہیں جسے اما ابا کی مرضی سے بیاہ کر لایا گیا ہو اور وہ شادی کے پہلے مہینے ہی خوش خبری سنا دے. (بصورتِ دیگر آنے والے 365 دنوں میں خاندان کی بڑی بوڑھیوں کا اہم سوال یہ رہے گا '' خوشخبری کب سنا رہے ہو '' اور معینہ مدت یعنی 365 دن - بعض حلقوں میں دس پندرہ دن اوپر نیچے ہوسکتے ہیں - بغیر کسی اہم نوٹیفیکیشن کے گزر جانے پر موضوع گفتگو یہی رہنے کا امکان ہے کہ'' سلمہ کے ہاں سے اب تک کوئی خبر نہیں آئی. اللہ فضل کرے. ہم نے تو پہلے ہی رقیہ کو بول دیا تھا کہ بی! سوچ لو. سلمہ کی بہن کے ہاں تین سال تک بچہ نہ ہوا تھا اور جب ہوا بھی تو بیٹا نہیں بلکہ بیٹی. میں تو پریشان ہوں کہ اس کے شوہر کی نسل اب کیسے بڑھے گی '' برائے وضاحت یہ کہنے والی خاتون عموماً وہی ہوتی ہیں جن کے اپنے بارہ بچے ہوتے ہیں کہ اگر کبھی ان میں زخمی بھی ہوجئے تو کرکٹ ٹیم مکمل رہے مگر وہ پھر بھی گلے کرتی ہیں کہ '' زندگی میں کبھی شچا پیار نہیں ملا '' خوب است )

بات قربانی کے جانوروں کے نخروں کی تھی . ہمیں اعتراض اس بات پر نہیں کہ وہ نخرے کرتے ہیں بلکہ اس بات پر ہے کہ ان کے یہ ناز اٹھانے کے فرائض منصبی ہمارے کنبے میں ہمیں سونپ دیے جاتے ہیں کہ گھر میں سب سے چھوٹے ہونا قرار پائے ہیں. لہذا آج ہم ان چند مسائل کی لسٹ احباب کے حضور پیش کرنا چاہتا ہیں جن کا سامنا ہمیں گزشتہ چار پانچ سالوں سے چلا آرہا ہے

1. 10 کلو پٹھے لاؤ تو کم پڑتے ہیں. 20 کلو لے آؤ تو زیادہ ہوجاتے ہین اور اگلے کھانے کے وقت تک باسی ہوجاتے ہیں.

2. پٹھے ٹب میں رکھ کے جاؤ اور ایک دو گھنٹے بعد واپس لوٹو تو اس ٹب میں پٹھے تو موجود ہوتے ہیں لیکن فرق یہ ہوتا ہے کہ وہ گائے کے نظام انہطام سے ایک چکر لگا کر آچکے ہوتے ہیں لہذا ناپاک ہوتے ہیں. ایسے میں نئے ٹب کا انتظام کرنا پڑتا ہے. 

3. گائے کو پانی پلانے کے حوالے سے ہم ہمیشہ پریشان رہے ہیں. کبھی ہمیں یہ بتایا گیا ہے کہ اسے دن میں دو بار پانی پلایا جائے. مگر ایسا کرنے میں ہمیں لگتا ہے کہ ہم اس بیچاری پر ظلم کر رہے ہیں. بصورتِ دیگر ہم اس کے پاس اگر بالٹی میں پانی رکھ جائیں تو کچھ دیر بعد لوٹنے پر معلوم ہوتا ہے کہ پانی نسبتاً زرد اور گاڑھا ہوگیا ہے اور مقدار میں گھٹنے کی بجائے بڑھ گیا ہے. اس کی وجہ مگر آج تک ہماری سمجھ میں نہ آسکی ہے. کیا آپکو معلوم ہے؟

4. پٹھوں کے ساتھ پیش کیے جانے والا لوازمات مثلاً توڑی، کھنڈ وغیرہ کے نام ہمیں ہر سال بھول جاتے ہیں. پھر ان کی شرح کے متعلق کوئی پیمانہ نہیں دیا جاتا کہ کتنے پٹھوں کے ساتھ کتنی کھل؟ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ہم ہر سال ضرورت سے زیادہ لوازمات لے آتے ہیں جو بعد از قربانی بالا خانے کی شیلف میں پڑے رہتے ہیں کہ ہم انہیں خود کھانے سے تو قاصر ہیں. 

5. اور بھی دکھ ہیں جانوروں کے اوپر بیان کیے گئے کے سوا
مثلاً کھانا ڈالنے کے لیے آرام گاہ کو چھوڑ کر صحن میں جانا. ہر بار جوتا اور پاجامہ بدلنا کہ وہ جگہ نسبتاً صاف نہیں ہوتی جہاں گائے مقدس کو ٹہرایا جاتا ہے. ان مسائل کا تفصیلی حال اگر کسی کو درکار ہے تو ہمارے ساتھ ایک نشست کا اہتمام کرے تاکہ اس متعلق مزید انکشافات ہم دوبدو کر سکیں . اس موقع چائے بھی ہوجائے تو خوب ہے کہ بقول مس فوڈلز :

'' چائے فقط چائے نہیں یہ اک احساس کا نام ہے. اس کا کوئی وقت مقرر نہیں. جب چاہے پی لو '' 

مندرجہ بالا مسائل کے متعلق اپنی پیشہ ورانہ رائے ضرور دیں اور ان کے مناسب حل تجویز کریں تاکہ آنے والی عید پر جو چبد ہی دن بعد ہے ہمین سہولت رہے. ذی الحج کا چاند مبارک. 
عین نوزاش ہوگی 
العارض 
گامی ابن فریاد
والسلام

Comments

Post a Comment

Popular posts from this blog

لُڈو اِسٹار اور گامی - فکاہیہ

قصہ ہمارے نکاح کا

وہ ساتھ بیٹھ جائے تو رکشہ بھی مرسڈیز