گیزر کا بیان - از عبداللہ شیخ
'' زیادہ سردیاں آتی ہے تو زیادہ گر چلتا ہے
یہ کہاوت ہمارے بہترین دوست حضرت گامی کی کتاب فضولیات گامی سے ماخذ ہے.
اس کتاب کے دو فضائل ہیں :-
1. ایک عام آدمی کی زندگی میں پیش آنے والے تمام ہی معمولی واقعات کو مثلا :
¶ سردیوں میں گیس فراہم کرنے والے ادارے ایس این جی پی ایل کی بے حسی کی بدولت ٹھنڈے پانی سے نہانا
¶ سارا سال شغل میں گزارنے کے بعد عین امتحان سے تیس چالیس دن پہلے جب پڑھائی میں مشغول ہو تو زندگی سے مایوس ہو جانا
¶نو بیاہتے جوڑے سے بار بار سوال کرنا کہ خوشخبری کب سنا رہے ہو گویا آبادی میں خاطر خواہ اضافہ کی خبر کب سنا رہے ہو
اس قسم کے دیگر معاملات کو نہایت غیر معمولی انداز میں پیش کیا گیا ہے
2. اس کتاب کی یہ فضیلت بھی ہے کہ یہ اس میگزین کی مانند ہے جس کی ہم نے کالج کے سال اول میں پرزور بنیاد رکھی مگر معاملہ بنیاد سے آگے نہ بڑھ سکا گویا نیڈو آئرن کی کمی کا شکار تھا اور آج تک اس کا شکار ہے گو دونوں کو کبھی شائع ہونے کا موقع ہی نہیں ملا.
جو بن جائے تو تدبیر بنے، جو ٹل جائے تو تقدیر بنے
اس بات کو شیخو کیا سمجھیں یہ بات نہیں سمجھانے کی.
خیر آمدم برسر مقصد : ایک روز خاوندی ہمارے یہاں آ ٹپکا اور گویا ہوا
'' میاں عبیداللہ یا تو آپ ہمارے گھر میں ہمارا گیزر رہے گا یا پھر ہم. وہ سیخ پا تھے
'' ارے ایک تو ہمیں غلط نام سے پکارتے ہو اور اتنی پیاری چیز کو جو تمہیں ٹھنڈے پانی سے بچاتی ہے برا بھلا کہتے ہو اور ایسے بھی اس ٹھنڈ میں تم گھر چھوڑ کر جاؤ گے کہاں. '' ہم نے تشویش کا اظہار کیا.
'' میاں بات یہاں یہ ہے کہ اس کے آئے روز نخرے ختم ہی نہیں ہوتے اس پر طرفہ یہ کہ جناب زوجہ محترمہ جو مرے بچوں کی والدہ ہیں، وہ بھی اس کی حمایت میں آ کھڑی ہوتی ہے. ابھی جاڑے کی پہلی ہوا چلی تھی کہ محترمہ نے مطالبہ کردیا کہ جاؤ گیزر چلا دو. ہم باہر نکلے تو معلوم ہو کہ واقعی جاڑا آ پہنچا ہے. ٹھنڈ سے قلفی بننے لگ گئے. اندر آکر فوراً جیکٹ پہنی ( جو پہلے کسی پہلے کسی ٹوم جان کی ملکیت تھی کیونکہ لنڈا بازار سے خریدنے کے بعد اس کی جیب سے اسی نام کی پرچی نکلی تھی) خیر گیزر چلانے کی کوشش کی مگر ندارد.''
'' ارے خاوندی تم تو ویسے ہی آگ لگانے میں ماہر ہو پھر بھی تم سے گیزر نہ چلا؟ ''
'' لاحول ولاقوۃ الا باللہ ہم نے اس کو کئی بار چلانے کی کوشش کی لیکن وہ حکومت پاکستان کی مانند دھوکا دیتی رہی ''
گیزر کا فائدہ تب ہے کہ وہ چلتا بھی ہو
دونوں طرف ہو آگ برابر لگی ہوئی
'' آئے روز پلمبر کو بلانا پڑتا ہے. پلمبر بھی ان دنوں میں ایسے رویہ اختیار کر لیتے ہیں جیسا کہ عید پر قصائی. ہاتھ نہیں آتے. آپ جائیں تو خوب نخرے دکھاتے ہیں. انتظار کے بعد آتے ہیں. پھر جاتے ہوئے یہ شعر سنا کر جاتے ہیں.
گو گیزر ٹھیک نہ ہوا پر ہزار شکر
مالک سے ہزار 2000 ڈکار تو گی ''
'' تو میاں گھبراتے کیوں اگر اتنی تنگی ہے تو انسٹنٹ گیزر کیوں نہیں لگوالیتے. نہ گیس کا مسئلہ. نہ کوئی اور مسائل'' ہم نے کہا.
اس بات سے وہ بہت خوش ہوئی کہنے لگے '' میاں ایک کام کرو تم ہی میرے گھر میں انسٹنٹ گیزر لگوادو. ہم نے حامی بھر لی کیونکہ ہمارا ماننا ہے کہ
ہیں لوگ وہی جہاں میں اچھے
لگواتے ہیں جو گیزر دوسروں کا
ہم نے سوچا کہ اب مصیبت ٹل گئی ہے لیکن ٹھیک ایک ہفتے بعد خاوندی پھر ہماری طرف آ نکلا اور فوری طور پر ہم سے دست و گریباں ہوا کہ یہ کیا کروا دیا تم نے. یہ کبھی تو چلتا ہے اور کبھی بند ہوجاتا ہے.
اب ہم کیا کرتے اس کا ہم نے اس کو نظر انداز کیا اور پہلے ہم سات بج کے خبرنامہ میں مشغول ہوگئے اور اس کے باد لکس اسٹائل ایوارڈ 2019 دیکھنے لگ گئے.
یہاں مگر یہ بات ضرور ہے کہ جس کام کے لیے گرم حمام کا انتظام کیا جاتا تھا آج وہی سہولت باآسانی میسر ہے. مگر ہم پھر بھی گلے کرتے ہیں اور رب کی ناشکری کا ورد کرتے ہیں یہ نہیں سوچتے کہ ہم خدا کی کون کون سی نعمت کو جھٹلاؤ رہے ہیں
رہے نام اللہ کا
و السلام
اس بات سے وہ بہت خوش ہوئی کہنے لگے '' میاں ایک کام کرو تم ہی میرے گھر میں انسٹنٹ گیزر لگوادو. ہم نے حامی بھر لی کیونکہ ہمارا ماننا ہے کہ
ہیں لوگ وہی جہاں میں اچھے
لگواتے ہیں جو گیزر دوسروں کا
ہم نے سوچا کہ اب مصیبت ٹل گئی ہے لیکن ٹھیک ایک ہفتے بعد خاوندی پھر ہماری طرف آ نکلا اور فوری طور پر ہم سے دست و گریباں ہوا کہ یہ کیا کروا دیا تم نے. یہ کبھی تو چلتا ہے اور کبھی بند ہوجاتا ہے.
اب ہم کیا کرتے اس کا ہم نے اس کو نظر انداز کیا اور پہلے ہم سات بج کے خبرنامہ میں مشغول ہوگئے اور اس کے باد لکس اسٹائل ایوارڈ 2019 دیکھنے لگ گئے.
یہاں مگر یہ بات ضرور ہے کہ جس کام کے لیے گرم حمام کا انتظام کیا جاتا تھا آج وہی سہولت باآسانی میسر ہے. مگر ہم پھر بھی گلے کرتے ہیں اور رب کی ناشکری کا ورد کرتے ہیں یہ نہیں سوچتے کہ ہم خدا کی کون کون سی نعمت کو جھٹلاؤ رہے ہیں
رہے نام اللہ کا
و السلام
Comments
Post a Comment