قرنطینہ اور گامی



اے پڑھنے والو! پڑھو کہ آج فدوی نے دورِحاضر کی ایک نہایت ہی نازک صورتحال پر لکھ ڈالا ہے. اس صورتحال سے نہ صرف ہم بلکہ گامی سمیت ہمارے تمام ہی احباب متاثر ہوئے ہیں. جو لفظ اس کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے وہ بہرحال ہماری موجودہ ادبی صلاحیتوں اور سمجھ بوجھ سے بالاتر ہے. گوگل نے اس کا ترجمہ الگ تھلگ رہنے کا کیا ہے جبکہ اردو پوائنٹ کے مطابق اس کے لفظی معنی ایک خاص مدت کے لیے ایک جگہ رہنے کے ہیں. گامی کے مطابق ا
س کا مطلب طبی قید ہے.
  ہمارا یہ ماننا ہے کہ یہ لفظ غیر ضروری طور پر اتنا مشکل رکھا گیا ہے. یہی وجہ ہے کہ پہلے تو ہم اس لیے 
پریشان رہے کہ اس کی املا کیا ہو گی؟

 قرطینہ، قرنطینہ، قرقطینہ یا کترینہ. 


گویا ان چار میں سے ایک آخری لفظ ہمیں جانا پہچانا لگا کیونکہ محترمہ کو ہم نے ایک عدد جوس کے اشتہار میں غالب کے پسندیدہ آم کے ساتھ کچھ غیر اخلاقی حرکات کرتے دیکھا تھا جنہیں دلکھنے سے ہم عاجز ہیں.


  بہر حال تین چار اساتذہ سے رہنمائی لینے کے بعد یہ بات مستند قرار پائی کہ اصل لفظ قرنطینہ ہے اور اس قرنطینہ کو حکومتِ وقت نے نافذ کیا ہے.
اس کے نفاذ کی وجہ چائنہ سے آنے والا ایک وائرس جو پوری دنیا میں یوں پھیل گیا ہے جیسے ہمارے یہاں کی خواتین میں راز پھیلتے ہیں ( یا جس طرح محلے میں گلی کی نکڑ پر رہنے والے حاجی فاروق کا خاندان پھیل رہا گویا ہر سال ہی ایک عدد کا اضافہ ہوتا ہے. اس پر مزید یہ کہ موصوف ابھی بھی کرکٹ ٹیم پوری کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں.) کورونا وائرس کے سلسلے میں گامی کی رائے مختلف ہے، اس کا ماننا ہے کہ یہ وائرس زیادہ عرصے تک اپنا وجود قائم نہ رکھ پائے گا چونکہ اس کی بنیاد چین سے ہے اور وہاں سے آنے والا مال زیادہ دیرپا نہیں ہوتا. ہم مگر اس رائے کے منکر ہیں. گویا

ع - کافروں کے کافر ہم، کافر خدا ہمارا


   خیر آمدم بد سرِ مقصد کورونا وائرس نے جہاں جسمانی طور پر بہت سوں کو متاثر کیا، وہیں یہ شعراء کے دماغ کو بھی چڑھ گیا اور نہایت اعلیٰ قسم کے اشعار اور غزلیں سامنے آئیں. مثال کے طور پر ہمارے ہر دلعزیز خاوندی کا یہ 
 شعر ملاحظہ ہو
                   
  الفت کا مزہ جب ہے کہ ہوں وہ بھی بیمار
       دونوں طرف ہو کورونا برابر ہوا ہوا


 جبکہ گامی نے لکھا

                
کورونا، کورونا، دعا یہ کرونا، کسی کو یہ ہو نہ
 ہو گا نہ کورونا، ہاتھ تو دھونا، جلدی سے سوناٹ ینشن تم لو نہ، بعد میں نہ رونا، مذاق میں نہ لو 
نا
          
 بصد شکر کہ ہم اس قسم کے لوازمات سے پاک رہے لیکن ایک مسئلہ جو ہمیں پیش آیا، ان قرنطینہ کے دنوں میں ہم کریں تو کریں کیا؟ نہ گھر  سے نکل سکتے ہیں نہ کسی دوست سے مل سکتے ہیں. گویا ایک دن جب ہم ان حالات کے سبب زندگی سے عین مایوس ہوگئے تو ہم نے گامی کو کال ملا چھوڑی: " میاں گامی! کیسے ہو؟ میاں! ٹھیک '' 'کیسے ہو؟ الحمدللہ، اور سناؤ؟" الغرض گفتگو '' اور سناؤ سے آگے بڑھنے کا نام ہی نہ لے رہی تھی. لہٰذا ہم نے ایک تاریخی فیصلہ لیا: " میاں گامی! وقت ہاتھ سے نکل رہا 
ہے اور یہ بھی سچ ہے
    
   گیا وقت پھر ہاتھ آتا نہیں
سدا عیش قرنطینہ دکھاتا نہیں

تو فیصلہ یہ ہوا کہ آج سے ہم اور تم سماجی رابطے کی موبائل ایپلیکیشن واٹس ایپ کے ذریعے ایک دوسرے کو علمِ طب کے موتی پرونا سکھائیں گے (عام الفاظ میں گروپ اسٹڈی کریں گے) "


      جملہ احباب کو جن کا تعلق علمِ طب سے ہے، یہی نصیحت ہے اور دیگر احباب جن پر یہ شق لاگو نہیں ہوتی، ان سے گزارش ہے کہ اپنے گھروں میں رہیں اور محض فیس بک، انسٹاگرام، لڈو اسٹار اور اس قسم کی دیگر لوازمات سے خود کو نجات دلا کر کچھ پروڈکٹیو کریں.

      کیا کرنا ہے؟ خود سے پوچھیے! جواب آپ کے پاس موجود ہے. ہر شخص اپنے سوالات اور ان کے جوابات ساتھ لے کر گھومتا ہے. صرف ان کو تلاش کرنے کی ضرورت ہے.

      رہے نام اللہ کا.
     والسلام.
    ٣١ مارچ ٢٠٢٠ء

Comments

Post a Comment

Popular posts from this blog

لُڈو اِسٹار اور گامی - فکاہیہ

قصہ ہمارے نکاح کا

وہ ساتھ بیٹھ جائے تو رکشہ بھی مرسڈیز